فرانس گوگل، فیس بک پر ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے پر ڈٹ گیا

Last Updated On 18 July,2019 06:35 pm

پیرس: (ویب ڈیسک) فرانس نے امریکی دباؤ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی صورت امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں فیس بک، گوگل اور دیگر پر ٹیکس عائد کرنے کے اعلان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق فرانسیسی یہ اقدام پیرس کے قریب ہونے والے سالانہ ’جی سیون‘ ممالک کے اجلاس پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ جی سیون اجلاس میں دونوں ملکوں کے وزارت خزانہ کے حکام کی ملاقات متوقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فرانس: فیس بک، گوگل، ایپل، ایمیزون پر ٹیکس عائد، امریکا کی تنقید

یاد رہے کہ فرانس نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکی کمپنیوں فیس بک، ایپل اور گوگل پر فرانس میں موجود صارفین کو سروسز مہیا کر کے ان سے منافع کمانے پر 3 فیصد ٹیکس عائد کرے گا۔ گذشتہ ہفتے کیے گیے فیصلے کے بعد فرانس وہ پہلی معیشت بن گیا ہے جس نے ٹیکنالوجی کمپنیوں پر اس قسم کا ٹیکس عائد کیا ہے۔ فرانس کے فیصلے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس اقدام کے جواب میں ممکنہ طور پر فرانس کے ساتھ تجارت پر بھی ٹیکس عائد کریں گے۔

فرانس کے وزیر خزانہ بغونو لمیغ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی دھمکیوں کے باوجود اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اُدھر وزیر خارجہ نے انٹرویو میں کہا کہ ممکن ہے امریکہ فرانس کے خلاف پابندیاں عائد کردے۔ اس کے لیے قانونی طریقہ کار موجود ہے اور سیاسی خواہش بھی ظاہر ہے۔

فرانسیسی حکام کے مطابق ٹیکس سے امریکی کمپنیوں کو نشانہ بنانا مقصد نہیں۔ فرانس نے اسے گافا ٹیکس کا نام دیا ہے جو گوگل، ایمازون، فیس بک اور ایپل کے ناموں کے پہلے حروف ہیں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ فرانس قومی ٹیکس کو متعارف کرانے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس کا فیصلہ ہوا تھا، اس پر ووٹ ہوا تھا اور اس کو 2019 سے عمل میں لایا جائے گا۔ امریکی سیکرٹری خزانہ سٹیون نوشن کو سمجھائیں گے کہ ٹیکس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ امریکی کمپنیوں کو نشانہ بنایا جائے۔ بین الاقوامی ٹیکس کے نظام پر کام چند سالوں سے جاری ہے جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ان ملکوں میں ٹیکس ضرور ادا کریں جہاں وہ سب سے زیادہ کاروبار کرتی ہیں۔

دوسری طرف فرانس کی دیکھا دیکھی سپین اور برطانیہ بھی بین الاقوامی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تیاریاں کرنے لگے ہیں، برطانیہ نے اس قسم کے ٹیکس کا گذشتہ ہفتے ذکر کیا ہے جبکہ سپین کا کہنا تھا کہ نئی حکومت آنے کے بعد اس معاملے پر فیصلہ کیا جائے گا۔