سری نگر : (ویب ڈیسک ) مقبوضہ کشمیر پر بھارتی فوج کے غیر قانونی قبضے کے خلاف دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری کل یوم سیاہ منائیں گے، بھارتی فوجی قبضے نے کشمیریوں کیلئے زندگی مشکل تر بنادی ہے۔
مقبوضہ کشمیر جو کہ 40 سے زیادہ عالمی تنازعات والے علاقوں میں سے ایک ہے، ایک شاندار مثال ہے کہ کس طرح قبضہ سماجی اقتصادی حالات کو تباہ کر سکتے ہیں، خطے پر قبضے سے شدید پابندیاں اور انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اور روزمرہ زندگی ، معاشی استحکام بری طرح متاثر ہوا۔
بھارتی حکومت کا یہ وعدہ کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے جموں و کشمیر میں استحکام، معمولات اور معاشی خوشحالی آئے گی، خطے کی معیشت کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی ، اقتصادی ترقی کی رفتار سست پڑ گئی ، بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
گزشتہ 5 سالوں سے IIOJK میں موجودہ معاشی بحران درحقیقت ماضی میں ہندوستانی حکومت کے بے لگام اور بلاجواز اقدامات کا نتیجہ ہے، چھوٹے کاروبار اور دکانیں ، بنیادی شعبے بشمول زراعت، باغبانی، سیاحت اور دستکاری کی صنعت سبھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں، بہت سے تاجروں نے اپنے تجارتی مراکز کو ہندوستان کے دوسرے حصوں میں منتقل کر دیا ۔
اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے تناظر میں سخت فوجی لاک ڈاؤن جہاں نقل و حرکت، مواصلات اور ضروری خدمات محدود تھیں وہیں کورونا وبا نے دہرے بحران کو جنم دیا، صحت عامہ کی بنیادی سہولیات سے محروم یہ وادی وبائی مرض کے دنوں میں بے یارومددگار بے حسی کا شکار ہوئی۔
منسوخی سے پہلے، جب دنیا COVID-19 وبائی امراض کے بے مثال چیلنجوں سے نبرد آزما تھی، IIoJK میں صورتحال خاصی سنگین تھی ، کشمیریوں کے لیے وبائی مرض صرف صحت کا بحران نہیں تھا، یہ ظلم اور غفلت کے ایک دیرینہ چکر کی توسیع تھی۔
سیاحت، جو کشمیر کی معیشت کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے، خاص طور پر سخت متاثر ہوا، ٹور آپریٹرز، ٹریول گائیڈز، ہوٹل، بس سروسز، ہاؤس بوٹس، "شکاراس" (کشتیاں) اور ایڈونچر سپورٹس شامل ہیں، سیاحوں کی کم ہوتی تعداد اور ملازمت کے مواقع کی کمی کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
دنیا کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے امن اور ترقی کا وہ بیانیہ جھوٹا ہے جس کو بھارت تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔