بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان

Published On 25 September,2024 11:18 am

لاہور: (امتیاز رشید قریشی) جمہوریت کیلئے نوابزادہ نصر اللہ خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، وہ ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جو حقیقی معنوں میں کسی بھی دور میں نہ بکے اور نہ جھکے۔

1951ء کے بعد ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے نوابزادہ نصراللہ خان کا ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا، انہیں سب سے زیادہ شہرت ایوب خان کے دور میں اس وقت ملی جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی کیلئے قربانیاں دیں اور ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا، اس وقت جب دوسرے سیاستدان ہمت ہار بیٹھے تھے یہ مردِ قلندر میدان عمل میں ڈٹا رہا اور ایوب خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرے۔

یہی صورتحال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی رہی، نوابزادہ نصر اللہ خان نے مستقل مزاجی سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک جاری رکھی، قائد جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بِیت چکے ہیں اور ان کی برسی کل منائی جائے گی۔

نوابزادہ نصر اللہ خان 13 نومبر 1916ء کو مظفرگڑھ کے قصبے خان گڑھ میں پیدا ہوئے، ان کے والد نوابزادہ سیف اللہ خان دفعہ 30 کے مجسٹریٹ تھے، نصراللہ خان ابھی چھ برس ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، انہوں نے ایچیسن کالج لاہور سے ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں گریجوئشن کیلئے داخلہ لیا لیکن شادی کے باعث انہیں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔

وہ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے، سیاست انہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے شروع کی، وہ اس جماعت میں اس طرح رچ بس گئے کہ قیام پاکستان سے قبل 27 یا 28 سال کی عمر میں ہی وہ اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔

1950ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، بعدازاں اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ سے استعفیٰ دے دیا اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ قائم کی، نوابزادہ نصر اللہ خان 1962ء میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انہوں نے 1962ء میں ہی حزب اختلاف کا اتحاد ’’نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘ تشکیل دے دیا، 1964ء میں متحدہ حزب اختلاف (سی او پی) کے نام سے ایک تیسرا بڑا سیاسی اتحاد معرض وجود میں آیا۔

مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا یہ دوسرا بڑا اتحاد تھا جس کے قیام کا موقع ایوب خان نے صدارتی انتخاب کا اعلان کر کے فراہم کیا تھا، تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول کونسل مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی اور عوامی لیگ نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا، ابتدا میں سی او پی کے رہنما ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کھڑا کرنے کے معاملے میں اختلافات کا شکار ہوگئے تاہم فاطمہ جنا ح کے نام پر کسی کو اعتراض نہ ہوا۔

نوابزادہ نصراللہ خان نے محترمہ فاطمہ جناح سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی، پہلے انہوں نے انکار کیا مگر بعد ازاں انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی، نوابزادہ نصراللہ خان نے فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا، سی او پی کو قوی یقین تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح الیکشن جیت جائیں گی، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ کو شکست ہوگی۔

نوابزادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف 1967ء میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ تشکیل دیا، انہوں نے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف حزب اختلاف کا کردار ادا کیا، نوابزادہ نصراللہ خان کو اپنی سیاسی زندگی میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں، کئی مرتبہ جیلوں میں گئے اور متعدد بار نظر بند رہے۔

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران اپنے آبائی گھر خان گڑھ میں نظر بند ہونے کے باوجود ملکی سیاسی صورتحال پر پوری طرح نظر رکھے رہتے، وہ وقتاً فوقتاً قلبی واردات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کر کے نظم کی صورت میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنے 50 سالہ پرانے رفیق عبدالرشید قریشی ایڈووکیٹ کے نام بھجوا دیتے، جو اس کی نقول مختلف اخبارات کو جاری کر دیتے، جنرل ضیاء الحق کے عہد مارشل لاء میں جس نظم کے چرچے ہوئے اور ملک بھر میں اس کی فوٹو کاپیاں تقسیم کی گئیں وہ یہ ہے۔

کتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں
جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں
غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے
خامشی کو بھی اک طرز نوا کہتے ہیں
کشتگانِ وجور کو بھی دیکھ تو لیں
اہل ِدانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیں
کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی
آج بھی پیش بتاں نامِ خدا کہتے ہیں
یوں تو محفل سے تیری اٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا ، کہتے ہیں
یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیل شفا کہتے ہیں
بزمِ زنداں میں ہوا شور سلاسل برپا
دہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیں
آندھیاں میرے نشیمن کو اُڑانے اٹھیں
میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا، کہتے ہیں
ان کے ہاتھوں پر اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کش اِسے رنگ ِحنا کہتے ہیں
میری فریاد کو اس عہدِ ہوس میں ناصر
ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں

نوابزادہ نصر اللہ خان نے 1988ء اور 1993ء کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا، انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 18 سیاسی اتحاد بنائے، جن میں پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی، این ڈی اے، اے آر ڈی، اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحاد شامل ہیں، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جس میں بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کو ایک فورم پر جمع کیا۔

نوابزادہ نصر اللہ خان پیرانہ سالی اور علالتوں کے دور سے گزر رہے تھے اس کے باوجود انتقال سے کچھ دن پہلے انہوں نے بیرون ملک دورہ کیا، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کی ترغیب دی، اس سفر میں انہیں عمرہ ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

نوابزادہ نصر اللہ خان مسلح افواج کے سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ کسی بھی آئینی کردار کے خلاف تھے، ان کی جمہوریت کے فروغ کیلئے خدمات قابل تحسین ہیں، حکومت کو چاہیے کہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی بحالی جمہوریت کیلئے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’بحالی جمہوریت کا ہیرو‘‘ قرار دے۔

26 اور 27 ستمبر 2003ء کی درمیانی رات وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے، انہیں ان کے آبائی قبرستان خان گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا، اس وقت ملک میں جو سیاسی افراتفری پھیلی ہوئی ہے، ان حالات میں اگر وہ زندہ ہوتے تو ملک میں سیاسی امن و امان قائم کرنے کیلئے ضرور اپنا کردار ادا کرتے۔

امتیاز رشید قریشی سیاست اور سیاسی شخصیات پر مضامین لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔