لاہور: (خاور گلزار) پاکستان میں اسلامی اور عیسوی کیلنڈروں کے ساتھ ساتھ بکرمی کیلنڈر کو بھی استعمال کیا جاتا ہے، بکرمی کیلنڈر کو دیسی کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے، دیسی کیلنڈر کا آغاز نصف صدی قبل مسیح میں ہوا، اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہے جبکہ پنجابی کیلنڈر، دیسی کیلنڈر اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔
دیسی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اس وقت کے ہندوستان کے بادشاہ راجہ بکرم اجیت کے دور میں ہوا، راجہ بکرم کے نام کی وجہ سے یہ کلینڈر بکرمی کیلنڈر بھی کہلاتا ہے، بکرمی یا دیسی کیلنڈر بھی تین سو پینسٹھ (365) دنوں کا ہوتا ہے اور اس کیلنڈر کے 9 مہینے تیس (30) دنوں کے ہوتے ہیں جبکہ ایک مہینہ وساکھ اکتیس (31) دن ہوتا ہے اور باقی دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) دن کے ہوتے ہیں۔
بکرمی کیلنڈر میں ایک دن کے آٹھ پہر ہوتے ہیں ایک پہر جدید گھڑی کے مطابق تین گھنٹوں کا ہوتا ہے ان پہروں کے نام کچھ یوں ہیں 1۔ دھمی نور پیر دا ویلا، صبح 6 بجے سے 9 بجے تک کا وقت، 2- دوپہرچھاہ ویلا صبح کے 9 بچے سے دوپہر 12 بجے تک کا وقت، 3- پیشی ویلا: دوپہر 12 سے سہ پہر 3 بجے تک کا وقت، 4 - دیگر یا ڈیگر ویلا، سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت،5- نماشاں یا شاماں ویلا، شام 6 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کا وقت، 6- کفتاں ویلا: رات 9 بجے سے 12 بجے تک کا وقت، 7- ادھ رات ویلا، رات 12 بجے سے سحر کے 3 بجے تک کا وقت، 8-سرگی اسور ویلا: صبح کے 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کا وقت ۔
’’ویلا‘‘ وقت کے معنوں میں برصغیر کی کئی زبانوں میں بولا جاتا ہے، پنجابی میں ایک مہاورہ بہت کثرت سے بولا جاتا ہے خاص کر بزرگ ہمیں سمجھانے میں یہ جملہ بہت استعمال کرتے ہیں، ’’ویلے دیاں نمازاں تے کویلے دیاں ٹکراں‘‘ جس کا مطلب ہے کہ وقت پر کام کر لیا جائے تو اسی کا فائدہ ہے بعد میں کیا جانے والا کام کسی کام نہیں آتا۔
’’روایات میں ہے کہ پنجابی کے 12 مہینوں کے نام گیاراں بھائیوں ویساکھ، جیٹھ، ہاڑ، ساون، اسو، کتک، مگھر، پوہ، ماگھ، پھگن، چیت اور 1 بہن (بھادوں) کے نام پر رکھے گئے یعنی سال کے سارے مہینوں میں بھادوں گیاراں بھائیوں کی اکلوتی اور انتہائی لاڈلی بہن ہے،‘‘ بھادوں جہاں انتہائی لاڈلی اور میٹھی ہے وہاں منہ زور، نک چڑھی، تیکھی اور چبھنے والی بھی ہے اسی لئے اس مہینے کی گرمی اگر تیز ہوجائے تو انسان پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے، اس مہینے میں ہوا اگر چلتی ہو تو انتہائی سہانہ موسم ہوتا ہے اور ہوا اگر بند ہو جائے تو سانس بھی بند ہو جاتی ہے۔
بھادوں پنجابی بکرمی اور نانک شاہی کیلنڈر کا چھٹا مہینہ ہے جو ساون کے بعد آتا ہے اور آٹھویں انگریزی مہینے اگست کی 16 تاریخ سے ستمبر کی 15 تاریخ تک رہتا ہے اور اس مہینے کے 31 دن شمار کئے جاتے ہیں۔
بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں ساون اور بھادوں بارشوں کے مہینے ہیں جس میں مون سون کی بارشیں ہاڑ یعنی جون اور جولائی کی شدید گرمی کے بعد گرمی کا زور توڑ دیتی ہیں اسی لیے بھادوں کو پنجاب میں اچھے موسم والا مہینہ جس کی گرمی برداشت کے قابل ہوتی ہے تصور کیا جاتا ہے۔
بابا گرو نانک جو سکھوں کے سب سے بڑے گرو ہیں اپنی کتاب گرو گرنتھ صاحب میں لکھتے ہیں کہ ’’بھادوں بارش کا مہینہ انتہائی خوبصورت مہینہ ہے اور ساون اور بھادوں رحمت والے مہینے ہیں جس میں بادل نیچے اترتا ہے اور تیز بارش برساتا ہے جس سے پانی اور زمین شہد سے بھر جاتے ہیں اور خالق زمین پر گھومتا ہے۔
کہتے ہیں بھادوں اگر برسے تو زمین پر رہنے والی مخلوق چرند، پرند، حشرات سبھی اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور اس دلفریب موسم کے مزے لوٹتے ہیں اور بھادوں اگر خشک ہو جائے تو یہ ہر چیز کو خشک کر کے رکھ دیتی ہے اس لیے اس موسم میں رب کائنات سے رحمت کی دعائیں مانگنی چاہیے تاکہ اس موسم کی سختی سے بچا جا سکے۔
22 بھادوں کی رات کو بھدروں کا تارا طلوع ہو جائے گا، دیسی موسمی پیشگوئی کے مطابق 23 بھادوں کے دن سے ہم سردیوں میں داخل ہوجاتے ہیں کیونکہ بھادوں کی 22 تاریخ کے بعد مکھی مچھر کا خاتمہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور مویشی پال بھائی مال مویشی سے مکھی مچھر بھگانے کیلئے دھواں نہیں لگاتے۔
22 بھادوں کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد اسوج(اسوں) کا دیسی مہینہ شروع ہوجاتا ہے اور اسوں میں صبح کے وقت شمال کی طرف سے ہوائیں چلتی ہیں جو کہ نارمل سے قدرے ٹھنڈی ہوتی ہیں اور درجہ حرارت گرانے میں کافی مدد دیتی ہیں، بھادوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ جیٹھ اور ہاڑ کی شدید گرمی کو ختم کرنے کے بعد جب خود ختم ہوتی ہے تو اپنے وجود کو کھونے کے ساتھ یہ زمین پر بہار کو جنم دیتی ہے اور موسم کو زمین والوں کیلئے انتہائی خوشگوار بنا دیتی ہے۔
خاور گلزار شعبہ صحافت سے تعلق رکھتے ہیں اور روزنامہ ’’دنیا‘‘ سے وابستہ ہیں۔