مظفرآباد : ( محمد اسلم میر ) بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے 11 دسمبر کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے حوالے سے دیئے گئے متعصبانہ فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لینے اور مستقبل میں کشمیری عوام کی حق خودارادیت کے حوالے سے جاری جدوجہد کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے کل جماعتی کانفرنس ہوئی ۔
وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر چودھری انوارالحق کی زیر صدارت کل جماعتی جموں وکشمیر کانفرنس ، جموں کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔
کانفرنس میں اتفاق رائے سے متعدد قراردادیں منظور کی گئیں، قراردادوں کے مطابق بھارت پے در پے مقبوضہ جموں وکشمیرکو بھارت میں ضم کرنے اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے اقدامات کر رہا ہے ، بھارت کے اس عمل کو کل جماعتی کانفرنس نہ صرف مسترد کرتی ہے بلکہ ہندوستان کے اس عمل کو عالمی سطح پر اجاگر بھی کیا جائے گا۔
ریاست جموں وکشمیرکا تنازع گزشتہ سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈا میں تصفیہ طلب مسئلے کے طور پر موجود ہے، ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر ہو گا اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت میں انضمام اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں اور بالخصوص قراراداد نمبر1951(91) اور1957(122) کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
کل جماعتی جموں و کشمیر کانفرنس میں شرکا نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تحریک آزادی کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چارٹر کے مطابق تسلیم شدہ حق خودارادیت کی تحریک سمجھتا ہے اور اس تحریک کی ہر سطح پر مکمل حمایت کی جائے گی۔
شرکائے کانفرنس نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا استقامت اور دلیری سے مقابلہ کرنے پر خراج تحسین پیش کیا، مقبوضہ جموں وکشمیر میں اظہار خیال کی پابندی، کل جماعتی حریت کانفرنس کے قائدین، اس کے کارکنان ، نوجوانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریوں او ر نظر بندیوں کی پر زور مذمت بھی کی گئی ۔
کل جماعتی جموں و کشمیر کانفرنس میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں کالے قوانین کے نفاذ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، ریاستی باشندہ سر ٹیفیکیٹ کے قانون میں تبدیلی کرکے بھارتی انتہا پسند ہندوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آباد کرنے، اسمبلی کی نشستوں میں تبدیلی لا کر کشمیریوں کو سیاسی طور پر کمزور کرنے، گھر گھر تلاشیوں اور فرضی جھڑپوں کے ذریعہ عام شہریوں کو شہید، مقبوضہ کشمیر کی زمینوں، ملازمتوں اور کاروبار پر بھارتیوں کے ذریعے قبضہ کروانے اور کشمیری عوام کی زبان، شناخت اور ثقافت مٹانے کے لئے نئی دلی کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی بھی مذمت کی گئی ۔
شرکائے کانفرنس نے کہا کہ بھارتی حکومت کے ان اقدامات کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم سمجھا جائے ۔
کل جماعتی جموں و کشمیر کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ کے دورہ مظفرآباد کے دوران کشمیریوں کے موقف کی جاندار ترجمانی پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا، اس موقع پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں ان کی توجہ تنازعہ جموں و کشمیر کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ۔
کانفرنس کے مندوبین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سیز فائر لائن کے دونوں اطراف کے عوام حق خودارادیت کی جدوجہد کو بارآور کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے، آزا د کشمیر حکومت، جملہ سیاسی جماعتیں، کل جماعتی حریت کانفرنس اور بیرون ممالک مقیم کشمیری مل کر اندورن اور بیرون ملک تنازع جموں و کشمیر کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
کانفرنس کے شرکا نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک سہ فریقی تصفیہ طلب مسئلہ ہے جس کے جموں وکشمیر کے عوام فریق اول ہیں ، جموں وکشمیر کے عوام ایسا کوئی حل قبول نہیں کریں گے جس میں ان کی مرضی اور منشاء شامل نہ ہو ۔
شرکائے کانفرنس نے عالمی ادارو ں بالخصوص اقوام متحدہ، یورپین یونین ، او آئی سی ، اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبران سے اپیل کی کہ وہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ، ترقی اور خوشحالی کیلئے مسئلہ جموں و کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور بھارت کو اس مسئلے کو حل کرنے میں تاخیری حربے اپنانے اور اس کے راستے میں روڑے اٹکانے کے عمل سے دور رکھیں۔
طویل عرصہ کے بعد تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسئلہ کشمیر بالخصوص 11دسمبر کو بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک جگہ جمع اور متفق ہونے سے جہاں مسئلہ جموں وکشمیر کی اہمیت اجاگر ہوئی وہیں سیز فائر لائن کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کو حوصلہ بھی ملا کہ وہ جدو جہد آزادی کشمیر میں تنہا نہیں ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کل جماعتی جموں و کشمیر کانفرنس کا انعقاد اور کامیابی کا کریڈٹ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو جاتا ہے۔