مظفرآباد ( محمد اسلم میر) 11 دسمبر 2023 کی صبح لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کے لئے ایک مایوسی کا پیغام لیکر طلوع ہوئی۔
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کرنے کے 5 اگست 2019 کے مودی حکومت کے فیصلے کو درست قرارد دیتے ہوئے اسے برقرار رکھا، بھارت کی سپریم کورٹ کے اس متعصبانہ فیصلے کے خلاف کشمیریوں نے بھرپور احتجاج کیا ۔
آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی نے ایک اجلاس میں بھارت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے متفقہ طور پر قرارداد منظور کر لی، جبکہ ہندوستانی سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل370 کے بارے میں متعصبانہ فیصلے کے بعد لائحہ عمل بنانے اورکشمیر کاز کو جاندار انداز میں اجاگر کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔
سپیکر چوہدری لطیف اکبر کی قیادت میں حکومتی و اپوزیشن ممبران نے مظفرآباد میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصر مشن میں آزاد جموں و کشمیر اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ قرار دادیں جمع کیں۔
اس فیصلے پر آزاد جموں وکشمیرکے وزیراعظم چودھری انوارالحق نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے کا تسلسل ہے ،کشمیری بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں ۔
وزیراعظم چودھری انوارالحق نے اسلام آباد میں کل جماعتی حریت کانفرنس آزادکشمیر شاخ کے کنوینر محمود احمد ساغر اور حریت قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس کی، ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کشمیریوں کو اپنی قیادت پر اعتماد کرنا چاہیے جب تک حریت قیادت موجود ہے اور جب تک میری روح اور جسم کا تعلق بر قرار ہے میں اس تحریک کے ساتھ خود کو وابستہ رکھوں گا آپ کو میرے اقدامات کو دیکھنا ہو گا۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینر محمود احمد ساغر نے کہا کہ آزادکشمیر کی حکومت ،حکومت پاکستان اور حریت قیادت ملکر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ٹھوس اقدامات کر ے گی۔
ہم وزیراعظم آزادکشمیر چودھری انوارالحق کی زیر قیادت حکومت کے ساتھ ملکر بھارت کے ہر اقدام کا مقابلہ کریں گے اور اسے ناکام بنائیں گے ، بھارت یسین ملک کو بھی پھانسی دینا چاہتا ہے ہمیں خدشہ ہے کہ اس سلسلے میں بھی فیصلہ جلد ہو گا۔
ادھروزیراعظم پاکستان آج بروز جمعرات آزادجموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کریں گے ۔
بھارت جنوبی ایشیا کا بد مست ہاتھی بن چکا ہے اور اسے روکنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے، پانچ اگست 2019 کے روز کشمیریوں سے ان کا آئین ، پرچم ، شناخت اور زمینیں چھننے کے پروانے پر دستخط کئے گئے جس پر 11 دسمبر کو بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے ججز نے مہر لگادی۔
پاکستان بننے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف ہندوستان سے فوجیں منگوا کر مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کے حوالے کر دیا تھا، لیکن 1953 میں جواہر لعل نہرو نے وزیر اعظم مقبوضہ جموں و کشمیر شیخ محمد عبد اللہ کو گلمرگ سے ایک عام پولیس کانسٹیبل سے گرفتار کروا کے جیل میں ڈال دیا اور اپنے چہیتےبخشی غلام محمد کے حوالے اقتدار کیا۔
اس غیر یقینی سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے بھارت کے آئین میں دفعہ 370 شامل کروا کر وزیر اعظم اور صدر ریاست کا عہدہ ختم کر کے مقبوضہ کشمیر میں وزیر اعلیٰ اور صدر ریاست کی جگہ گورنر کی منظوری دی۔
بھارتی آئین کے دفعہ 370 کے مطابق کشمیریوں کا اپنا آئین ، جھنڈا، شناخت اور قانون ساز اسمبلی ہو گی لیکن 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر مظالم کا آغاز کیا گیا ، پیلٹ گن سے ہزاروں بچوں کو اندھا جبکہ اسی تعداد میں نوجوانوں کو لاپتہ کر دیا گیا اور آج تک 20 ہزار سے زائد کشمیری نوجوان لاپتہ ہیں ۔
سال 2019 میں نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ریاست جموں و کشمیر کی از سرنو تنظیم کے حوالے سے پارلیمنٹ میں بل کثرت رائے سے منظور کیا گیا اور مقبوضہ کشمیر میں عوامی رائے کے بر خلاف گورنر راج کی آڑ میں 5 اگست 2019 کو مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر سے لداخ کو الگ کر کے بغیر اسمبلی کے مرکز کا زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا ۔
بھارتی حکومت نے جماعت اسلامی سمیت درجنوں مذہبی و سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگا دی ، ایک طویل لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا اور مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے 800 نئے قوانین کو نافذ کیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھارتی سپریم کورٹ میں پانچ اگست 2019 کے اقدامات کے خلاف درخواستیں جمع کروائیں جنہیں ابتدائی طور پر سماعت کیلئے منظور نہیں کیا گیا لیکن اچانک ان درخواستوں کی اگست اور ستمبر سال 2023 میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی ججز نے سرعت کے ساتھ سماعت شروع کی اور 11 دسمبر کو بنچ نے کشمیریوں کو ریاستی نیم خود مختاری اور دیگر حقوق سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا۔
اس فیصلے سے حریت کانفرنس کا موقف سچ ثابت ہوا کہ بھارت کشمیریوں کا دشمن ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز سیاسی جماعتیں جن کی سیاست ہمیشہ دفعہ 370 کے گرد گھومتی تھی اب وہ بھی پریشان ہیں کہ ان کے پاس کوئی سیاسی بیانیہ نہیں رہا جس کی بنیاد پر وہ مقبوضہ کشمیر میں سیاست کریں۔