اسلام آباد: (دنیانیوز) چیف جسٹس عمر عطا بندیال کاکہنا ہے کہ ہم قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں، لیکن کئی بار قانون کی تشریح سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایس ای سی پی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں تنازعات کے حل کیلئے قانونی ماہرین کی خدمات لینی چاہیں، عدالتیں قانونی پہلوؤں سے متعلق فیصلہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ججز وقت کے ساتھ ساتھ میچور ہوتے ہیں ، ہائیکورٹس میں کیپسٹی کے مسائل درپیش ہیں، ججز آسانی سے مارکیٹ میں میسر نہیں، کئی امتحانات دینے پڑتے ہیں، ٹریبونل کے نہ بننے سے عدالتوں پر بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، جو بھی ریگولیٹر ہے اس کو ایک ٹریبونل بنانا چاہیے، سروس کے معاملات پر سروس ٹریبونل بنے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اختیارات کا استعمال بہت محتاط ہوکر کرتے ہیں، ہم قانونی اور عوامی اہمیت کے معاملات دیکھتے ہیں، سپریم کورٹ میں بیٹھ کر ہم قانون کو آئین کے مطابق دیکھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ہمارا قانون کاروبار کے مواقع فراہم کرنے میں مددگار ہے؟ کاروبار کے مواقع اورصنعتی ترقی سے ملکی ترقی ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کاروبار دوست اقدامات کرنا ضروری ہے، آئین کا آرٹیکل 25 منصفانہ وسائل کی تقسیم کا ہے، ہر شعبہ سبسڈی مانگ رہا ہے، سبسڈی حکومت دیتی ہے، سپریم کورٹ صرف یہ دیکھ سکتی ہے کہ یہ سبسڈی بلاامتیاز ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کمرشل سالمیت اور ریگولیٹری اقدامات درست ہونے چاہئیں ، ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اور لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا، حکومت کو چاہیے کاروباری افراد کی مشاورت سے معاملات چلائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آئی پی پیز آئیں کیونکہ حکومت نے 30 سال کے ٹیرف کی گارنٹی دی ہے، ٹیکس قوانین کےتحت جائز سلوک کی ضرورت ہے، قانون فارن کرنسی بیرونِ ملک رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پرائیویٹ بزنس کی حوصلہ افزائی کرنے ضرورت ہے، بزنس کی گروتھ سے معاشی ترقی کو فروغ ملتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بہتر ریگولیٹری سسٹم کی ضرورت ہے، کمرشل اداروں کا وقار بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے، عوام کیلئے ریگولیشنز کو آسان بنانا ضروری ہے، ہائی کورٹس کی استعداد کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ہائی کورٹس پر بوجھ کم کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے، ہمیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کومضبوط کرنا ہے۔