کراچی: (دنیا نیوز) ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ہمیں کم گننے، دیوار سے لگانے، تعلیم و روزگار کے دروازے بند کرنے والے اب ہار مان گئے ہیں، مجھے لگتا ہے ہمارے ساتھ ظلم کرنے والے اب ہتھیار رکھ رہے ہیں۔
آل سندھ آفیسرز ویلفیئرایسوسی ایشن کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم مہاجروں کیلئے کشتی نوح ہے، یہ کشتی ڈوبتی ہے یا نکلتی ہے یہ بات یقین سے نہیں کی جا سکتی، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ گھر بچانے سے گھر بچتے ہیں یا محلہ بچانے سے گھر بچتے ہیں، سب کو نہیں بچایا تو کوئی ایک نہیں بچ پائے گا، مردم شماری ضروری ہے لیکن مردم شناسی بھی ضروری ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے مزید کہا ہے کہ وہ ریاست جو اپنے لوگوں کو صحیح گننے کی صلاحیت بھی نہ رکھتی ہو تاریخ اس سے سوال ضرور کرے گی، ایک اچھا وقت ہماری جانب بڑھ رہا ہے لیکن کیا ہم بحیثیت قوم اس کیلئے تیار بھی ہیں، اب ایسا تو نہیں ہو گاکہ جو لوگ اب ہمارے ساتھ آئیں گے ان کا مقصد اپنی نوکری بچانا ہو گا، پڑھی لکھی قومیں علم سے دانش کو کشید کرتی ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ اگر یہ سمجھیں کہ الگ رہ کر بچ جائیں گے تو خوش فہمی ہو گی ان کی، کارکنان سن لیں یہ تحریک آپ کی شناخت کیلئے نہیں قوم کی پہچان کیلئے ہے، اپنی شناخت چھپانے سے زیادہ بڑی شرمندگی کوئی نہیں ہے، اگر آپ کو یہ محسوس ہو کہ اپنی شناخت سے شرمندہ ہوں گے تو کچھ نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا ہے کہ 92 کے آپریشن کے بعد سندھ اور پنجاب کی جیلیں آپ سے بھری ہوئی تھیں، سنگین جرائم کے مجرموں کو چھوڑ دیا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کے لوگوں کیلئے جگہ بن سکے، کیا آج کی ایم کیو ایم اگر کمزور ہے تو کس وجہ سے ہے، ایم کیو ایم جیسی تحریکیں فرد واحد کیلئے نہیں بنی ہیں، حقوق دلانا ایم کیو ایم کی ذمے داری نہیں ہے۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی ذمے داری شناخت دلانا تھا وہ دلوا دی، کہاں تھی یہ عدالت پوری قوم کے لوگوں کو بغیر کیس چلائے سزا دی ہے، جنہوں نے سزا کاٹ لی پھر بے شرمی سے کہہ دیا کہ کوئی ثبوت نہیں ملا، حکمران وہی ہوتا ہے جو دیدار نہ دیتا ہو اور جو آپ کے ساتھ رہتا ہے وہ آپ کا لیڈر نہیں ہوتا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے کہا ہم میں سے بھی کچھ لوگوں نے کوشش کی کہ ہم جیسے نہ رہیں اگر ہم انصاف کیلئے عدالتوں میں نہ جائیں تو کیا ہتھیار اٹھائیں، سندھ سے زیادہ سپورٹ بھٹو صاحب کو پنجاب سے ملی، دیہی اور شہری کوٹہ سندھ میں لگا دیا گیا، شہر کے ضلع وسطی کی آبادی میں اضافہ کم اور ضلع ملیر میں زیادہ ہو رہا ہے۔