اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ایسا لگتا ہے ملک میں سیاسی نظام چلنا شروع ہو گیا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ نہ بیٹھنے کا تہیہ کرنے والی سیاسی جماعتوں نے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کااعلان کر دیا ہے جس کے بعد پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد میں ڈرامائی موڑ آگیا ہے۔
ریاست کے تینوں ستونوں نے معاملے کا حل خوش اسلوبی سے نکالنے کیلئے ایک موقع اور پیدا کیا ہے اور ڈیڈ لاک اور تصادم کی کیفیت فی الحال تھم گئی ہے۔ اس کیفیت کا تھمنا عارضی ہے یا مستقل ، اس بڑے سوال کا جواب چھوٹی عید کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ 4 اپریل کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 14 مئی کو کرانے کا فیصلہ سنایا اور وفاق کو 10 اپریل تک 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔
حکومت نے اس معاملے کو پارلیمان کی ڈھال استعمال کرتے ہوئے الجھا دیا اور خود ہی منی بل پارلیمان میں پیش کرکے خود ہی مسترد کروا دیا۔ سپریم کورٹ کو ایک اور حکم صادر کرنا پڑا اور گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم جاری کیا گیا کہ 17 اپریل تک 21 ارب روپے جاری کئے جائیں۔ سٹیٹ بینک نے اپنے پاس پڑے سرکار کے 21 ارب روپے کو ادائیگی کیلئے مختص تو کر دیا مگر وفاقی حکومت نے رقم ریلیز کرنے سے منع کرتے ہوئے اسے سپلیمنٹری گرانٹ کی شکل دی اورپارلیمان میں لاکر اسے بھی مسترد کروا دیا گیا۔
اب حکومت کو یہ حکمت عملی مہنگی پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کے حکم نامے میں قرار دیا ہے کہ قومی اسمبلی سے گرانٹ مسترد ہونے کے سنگین آئینی نتائج ہیں۔
ایک امکان یہ ہے کہ حکومت قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے مگر اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے جسے فی الوقت تسلیم کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ڈیمانڈ مسترد ہونے کو غلطی سمجھا جائے اور پیدا ہونے والی صورتحال کو فوری درست کیا جا ئے۔ عدالت نے کہا کہ حکومتِ وقت کے پاس مالی امور کے اقدامات کی منظوری کیلئے اہلیت ہونا ضروری ہے اور وزیراعظم کے پاس ہر وقت اکثریت ہونا لازم ہے۔
یعنی عدالت نے حکومت پر تلوار لٹکا دی ہے کہ اگر پارلیمان کا سہارا لے کر مالی امور سے متعلق بل اب مسترد ہوا تو یہ ظاہر کرے گا کہ حکومت کے پاس اکثریت نہیں رہی ،یوں حکومت کو گھر بھی جانا پڑ سکتا ہے۔
موجودہ بحرانی صورتحال میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم ، ڈی جی ایم او میجر جنرل اویس دستگیر اور سیکرٹری دفاع حمودالزمان خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی۔ وزارت دفاع کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی اور متفرق درخواست کے ذریعے استدعا کی گئی کہ حالات ٹھیک نہیں ملک بھر میں انتخابات ایک ہی وقت میں کرائے جائیں۔دوسری جانب الیکشن کمیشن نے عدالت میں جواب دائر کرکے سب کو حیران کر دیا۔
الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ اگر ملک میں ایک ساتھ انتخابات 8 اکتوبر کو نہ کرائے گئے توافراتفری اور بحران پیدا ہو جائے گا۔ پھر اچانک ایک شہری سردار کاشف کی جانب سے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست دائر کی گئی۔ توقع نہیں کی جارہی تھی کہ سپریم کورٹ ایک مرتبہ پھر اس معاملے کو سماعت کیلئے کھلی عدالت میں مقرر کردے گی کیونکہ روایت کے مطابق تو یہ معاملہ اب ختم ہو چکا تھا بس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانا باقی تھا۔سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی درخوست کو ناقابل سماعت قرار دے دیا اور الیکشن کمیشن کے مؤقف کو بھی مسترد کر دیا جبکہ عام شہری درخواست گزار سردار کاشف خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے معاملے کو آگے بڑھایا۔ الیکشن سے متعلق سماعت میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ملک میں سیاسی مذاکراتی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔
ایک کے علاوہ باقی تمام جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کیساتھ مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ صرف مولانا فضل الرحمان کو منانا باقی ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔حکومت نے آج پہلی مرتبہ مثبت بات کی ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ مذاکرات کا موقع دینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم ختم ہو گیا، حکومت کو حکم دیا گیا ہے کہ 27 اپریل تک 21 ارب روپے کے فنڈز الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جاری کئے جائیں۔
بدھ کے عدالتی حکم نامے کے بعد حکومت کے پاس پارلیمان کے فورم کی شیلڈ استعمال کرنے کی سہولت بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اب آپشن ہے صرف سیاسی مذاکرات کا جن کے کامیاب ہونے کی صورت میں سیاستدانوں کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے درمیانی راستہ نکالنا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے عدالت کی جانب سے معاملے کا سیاسی حل نکالنے کیلئے موقع فراہم کرنے پر خیر مقدم کیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سیاسی مذاکراتی عمل کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے؟ سب سے مشکل میں حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے۔
موجودہ حکومت کے فیصلوں کی اونرشپ (ن) لیگ کے اتحادی لینے کو تیار نہیں۔ تمام تلخ معاشی فیصلوں کی قیمت (ن) لیگ کو ہی ادا کرنی ہے ،یوں فوری انتخابات میں جانے کا سب سے کم مارجن اگر کسی کے پاس ہے تو مسلم لیگ (ن) ہے۔
مذاکراتی عمل کی کامیابی اسی صورت ممکن ہے کہ سیاسی جماعتیں 14 مئی سے 8 اکتوبر تک کسی درمیانی تاریخ پر رضامند ہو جائیں۔ اگر انتخابات جولائی یا اگست میں ہونے ہیں تو قومی اور دیگر دو صوبائی اسمبلیاں فوری تحلیل کرنا ہوں گی جس کے امکانات فی الحال نظر نہیں آتے۔ انتخابات ستمبر یا اکتوبر میں لے جانے کیلئے پاکستان تحریک انصاف کسی صورت تیار نظر نہیں آتی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ انتخابات کرانے کے معاملے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اب مذاکرات کی کامیابی یقینی بنانا ہو گی بصورت دیگر عدالت کی دی ہوئی تاریخ پر انتخابات کرانا ہوں گے۔حکم عدولی کی صورت میں نتائج سے متعلق عدالتی حکم میں اشاروں کنایوں میں بہت کچھ بتایا جاچکا ہے۔