اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے التوا سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دے دیا۔
فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ انتخابات کو 90 روز سے آگے لے کر جائے، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا انتخابات ملتوی کرنے کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب کا الیکشن شیڈول کچھ ترامیم کے ساتھ بحال کر دیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابات ملتوی کرنے پر شیڈول میں 13 روز کی تاخیر ہوئی، پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو ہوں گے جبکہ کاغذات نامزدگی 10 اپریل تک جمع کروائے جائیں گے، ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیلیں جمع کروانے کی آخری تاریخ 10 اپریل ہوگی، 17 اپریل کو الیکشن ٹریبونل اپیلوں پر فیصلہ کرے گا۔
فیصلے میں قرار دیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا، الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے اور صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، آئین و قانون انتخابات کی تاریخ ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کا فنڈ جاری کرے، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پابند کیا کہ 11 اپریل کو سپریم کورٹ میں فنڈ مہیا کرنے کی رپورٹ جمع کروائے، الیکشن کمیشن فنڈ کی رپورٹ بنچ ممبران کو چیمبر میں جمع کروائے، فنڈ نہ ملنے کی صورت میں سپریم کورٹ متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کرے گا۔
خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق معاملہ زیر سماعت رہے گا
سپریم کورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں انتخابات کیلئے گورنر کی طرف سے عدالت میں نمائندگی نہیں کی گئی، کے پی کی حد تک معاملہ زیر سماعت رہے گا، کے پی میں الیکشن کی تاریخ کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے، کے پی میں انتخابات کیلئے درخواست گزار عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔
وزارت دفاع نے سپریم کورٹ کے حکم پر رپورٹ جمع کروا دی
قبل ازیں وزارت دفاع نے عدالتی حکم پر سپریم کورٹ میں تحریری رپورٹ سربمہر لفافے میں جمع کروائی جس میں پنجاب اور خیر پختونخوا انتخابات میں فورسز کی تعیناتی کے حوالے سے تفصیلات شامل تھیں، رپورٹ میں موجودہ صورتحال پر انتخابات میں سکیورٹی کی عدم فراہمی کی وجوہات پر مبنی تفصیلات بھی شامل تھیں، وزارت دفاع کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنانا تھا۔
گزشتہ روز کی سماعت
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے دن ساڑھے 11 بجے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو وفاقی حکومت نے اپنا مؤقف تحریری طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرواتے ہوئے مذکورہ بنچ پر اعتراض عائد کر دیا، وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی۔
حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، 3 رکنی بنچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی درخواست مؤخر کی جائے، سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں انہیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بنچ بنایا جائے۔
حکومت نے مزید کہا کہ پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے دیا گیا، جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بنچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔
ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا: پی پی پی
سماعت شروع ہوئی تو پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ہم نے بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا، ہماری درخواستوں کے قابل سماعت ہونے اور بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا، اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔
حکومتی اتحاد کے اعلامیے میں استعمال کی گئی زبان
جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک طرف بنچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے، گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتیں بنچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایات ملی ہیں، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی؟، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔
قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا
چیف جسٹس نے ریمارکس دے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988ء میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بنچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں، 2 ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
جب بنچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5 رکنی تھا
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟، 27 فروری کو 9 رکنی بنچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، جب بنچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5 رکنی تھا، کیا چیف جسٹس کوئی بھی 5 ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بنچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا 9 رکنی بنچ کا ہوگا یا 5 رکنی بنچ کا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 9 رکنی بنچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے، کسی نے بنچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، عدالت بنچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بنچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہو سکتی، 5 رکنی بنچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں، کیا کسی نے یہ کہا کہ بنچ 7 رکنی ہے؟، پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کر دے پھر بنچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بنچ کرے گا؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بنچ بنا اور ازسرنو سماعت ہوئی، بنچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا، زیر حاشیہ میں بھی لکھا ہے کہ دو ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔
اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ دو ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا، مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا فیصلہ
اٹارنی جنرل نے جسٹس فائز عیسیٰ والے فیصلے کا معاملہ اٹھایا جس پر چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ 5 رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے، عوام کے مفادات مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں نہ کہ سماعت مؤخر کرنے سے، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالتی فیصلے کو پھر بھی سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا، موجودہ مقدمے میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹیگری میں آ سکتا ہے، رولز بننے تک سماعت مؤخر کی جائے۔
آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے رواں سال پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، دو اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، ازخود نوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے، اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں، پہلے طے تو کر لیں سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔
تین دن سینئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ نہ کسی جج کو بنچ سے نکالا گیا نہ ہی کوئی رضا کارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بنچ سے کون الگ ہوا؟، عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بنچ نہیں، گزشتہ تین دن میں سینئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں۔
کن ججز کا بنچ بنایا جائے
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بنچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بنچ بنایا جائے، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک فیصلہ 3 رکنی اکثریت نے دیا ایک 2 رکنی اقلیت نے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بنچ میں تھے؟۔
سیکرٹری دفاع سے تحریری رپورٹ طلب
سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان نے عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ پنجاب میں سکیورٹی حالات سنگین ہیں، ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے، ریزرو فورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ایئر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، ویسے فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، کوئی آ کر کہے تو سہی کہ کتنے سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔
عدالت نے سیکرٹری دفاع سے تحریری رپورٹ طلب کر لی۔
الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں
چیف جسٹس نے کہا کہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گے، سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟، کیا الیکشن کمیشن کو کمبیٹ والے اہلکار درکار ہیں؟، الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، الیکشن کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئے گا۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کیلئے چاہئیں، سکیورٹی کا ایشو تو ہمیشہ رہے گا جبکہ آئینی ضرورت 90 دن کی ہے، ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ
سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کیلئے 20 ارب چاہئیں، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟، درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے، جسٹس منیب نے کہا کہ کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں؟، وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پٹرولیم مصنوعات پر حکومت کا خسارہ 157 ارب روپے تھا، خسارہ 177 ارب ہو جاتا تو کیا ہو جاتا، کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی؟، ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے، قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کر دے گی، 5 فیصد تنخواہ 3 اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، کونسا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔
اسد عمر کی بریفنگ
اسد عمر روسٹرم پر آ کر بریفنگ دی کہ پہلے 5 ماہ میں 5700 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں، ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپے ہے، آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے، 20 ارب روپے بجٹ کا 0.02 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، 20 ارب کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں، ترقیاتی اخراجات 700 ارب روپے ہیں، ابھی تک 450 ارب روپے خرچ ہونا باقی ہیں، حکومت نے 8 ماہ میں صرف 200 ارب روپے خرچ کیے، کیسے ممکن ہے 700 ارب کے بجٹ سے 21 ارب روپے نہ نکالے جاسکتے ہوں، آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟، اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔
حکومت کی ہچکچاہٹ
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے عدالت فیصلہ کرے، ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔
علی ظفر کے حتمی دلائل
وکیل علی ظفر نے اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ خیبرپختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دینی ہے، کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ بدل سکتا ہے؟، میری نظر میں الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر اقدامات نہیں کرسکتا، بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے سارا ملبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ڈالا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا وسائل مل جائیں تو الیکشن کیلئے تیار ہیں، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار ہے۔
حکومت نے التوا سے متعلق مواد نہیں دیا
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ایسے حالات بھی ہو سکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہو سکیں، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہو سکیں، انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی۔
بعدازاں عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔