الیکشن از خود نوٹس: حکومت، پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ

Published On 28 February,2023 09:56 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے حکومت اور تحریک انصاف کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دے دیا، سماعت میں 4 بجے تک کا وقفہ کر دیا گیا۔

ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ کر رہا ہے، 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔

گزشتہ روز سماعت کے آغاز سے قبل ہی 9 رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس سننے سے معذرت کرتے ہوئے خود کو الگ کر لیا تھا۔

آج ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فیصلہ کر بھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی، مقدمہ بازی عوام اور سیاسی جماعتوں کیلئے مہنگی ہوگی۔

آج کی سماعت

آج کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری پر اعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی حکم سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔

سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ انتخابات 90 دن میں ہی ہونے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نوے روز کا وقت اسمبلی تحلیل کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا نگران وزیر اعلیٰ الیکشن کی تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے، کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟، اس پر عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے، الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے نگران وزیر اعلیٰ کا نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا، گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگر معمول کے عوامل سے مختلف ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا نگران حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی، کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجوائی جا سکتی؟۔

اس پر عابد زبیری نے کہا کہ آئین کی منشاء 90 دن میں انتخابات ہونا ہے، نگران کابینہ نے آج تک ایڈوائس نہیں دی تو اب کیا دے گی، چیف جسٹس بولے کہ نگران کابینہ کی ایڈوائس کے اختیار پر اٹارنی جنرل کو بھی سنیں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گورنر تاریخ نہیں دے رہا، صدر بھی ایڈوائس کا پابند ہے تو الیکشن کیسے ہوگا؟، کیا وزیر اعظم ایڈوائس نہ دے تو صدر الیکشن ایکٹ کے تحت اختیار استعمال نہیں کر سکتا؟، پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار تفویض کیا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ اگر حکومت کی تاریخ سے متعلق ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہرعمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے، حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔

وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے، اتنے دنوں سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، وقت کی معیاد مکمل ہونے پر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر تاریخ دے گا، میرا مؤقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے، چیف جسٹس نےکہا کہ آرٹیکل 48 کے مطابق تو الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔

سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے کہا کہ تفویض کردہ اختیارات استعمال کرنے کیلئے ایڈوائس کی ضرورت نہیں، الیکشن ہر صورت میں 90 روز میں ہونے ہیں، گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے، صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کا پابند نہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کو اگر ایڈوائس کی جائے تو اس کا پابند ہوگا۔ 

 

اٹارنی جنرل شہزاد عطاء الہٰی کے دلائل

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنرکی تاریخ پر تاخیر کرسکتا ہے؟، اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر 85ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 ویں دن کا کہہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گورنرکو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آج الیکشن کمیشن سے گورنرکی مشاورت کروائیں اورکل تاریخ دے دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کی تشریح پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہوسکتی، آئین سپریم ہے، صدر مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینےکی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے۔