لاہور: (دنیا نیوز) سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ضمنی الیکشن کے رزلٹ سے پاکستان کی ساری سیاست کو شاک لگا، پنجاب کی سیاست پورے پاکستان کی سیاست پر اثر ڈالتی ہے، شہباز شریف نے ہمیں ٹیسٹ کیا اب ان کی باری آگئی ہے، کل میٹنگ میں فیصلہ کریں گے شہباز شریف سے کب اعتماد کا ووٹ لینا ہے۔
ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شہباز شریف لشکر لیکر جنیوا گئے اور پیسہ ضائع کیا، جنیوا کانفرنس میں شرکت ویڈیو لنک کے ذریعے بھی کی جاسکتی تھی، جنرل باجوہ کو وارن کیا تھا (ن) لیگ نے ہمیشہ اکانومی کا بیڑہ غرق کیا، باجوہ کو کہا تھا اگر ملک میں عدم استحکام ہوا تو پھر کوئی نہیں سنبھال سکے گا، انہوں نے اپنے کیسز معاف کرانے کے سوا کچھ نہیں کیا اور آج اکانومی کریش کر گئی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ ہم نے چودھری پرویز الہیٰ کو پی ٹی آئی میں ضم ہونے کی تجویز دی ہے، پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا (ق) لیگ کے بھی مفاد میں ہے، وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے پیچھے سٹیبلشمنٹ ہے جیت جائیں گے، جس طرح پرویز الہیٰ کھڑے رہے ہماری پارٹی نے بڑا سراہا ہے، اصل تو قربانی پرویز الہیٰ نے دی ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ جب اقتدار میں تھا اتحادیوں کو ڈیل کرتے کرتے پاگل ہو گیا تھا، پنجاب اسمبلی میں ہم نے پلان کیا ہوا تھا پہلے قرارداد پاس کریں گے، ہم نے کسی کو نہیں بتایا تھا کہ اس دن اعتماد کا ووٹ لینا ہے، یہاں بیٹھ کر پنجاب اسمبلی کا سکور دیکھ رہا تھا، رات کو دس بجے اندازہ ہو گیا تھا کہ اعتماد کا ووٹ لے لیں گے، اس دن اللہ کا شکر تھا دھند نہیں تھی بادل آگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مونس الہیٰ سپین میں بیٹھ کر (ق) لیگ کے ممبران کو فون کر کے تعداد پوری کر رہا تھا، مونس الہٰی نے بھی بڑا اچھا رول ادا کیا، اب ملک بدل گیا چھانگا مانگا کی سیاست ختم ہو چکی ہے، یہ پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کوری لائز کرنا چاہیے، ہمارے ایم پی ایز کو گمنام نمبروں سے کالیں آ رہی تھیں، چن چن کر ہمارے ایم پی ایز پر پریشر ڈالا جا رہا تھا، اب پاکستان بدل گیا ہے پکا یقین تھا ہمارے ایم پی ایز نہیں جائیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ تمام اوپنین پول کے مطابق تحریک انصاف بھاری اکثریت سے جیتے گی، فضل الرحمان کے منہ سے سنا ہے دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں، ثابت ہو گیا انہوں نے حکومت مہنگائی کم کرنے نہیں اپنی چوری بچانے کیلئے لی تھی، پاکستان کو ایک کلیئر مینڈیٹ اور مضبوط حکومت کی ضرورت ہے، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اقتدار میں پیسہ بنانے آتے ہیں، بد قسمتی سے مارشل لا میں بھی اداروں کو ٹھیک نہیں کیا گیا، مجھے بتایا گیا کوئٹہ کا کمزور سے کمزور کلکٹر بھی اربوں روپے بناتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھے اگر پہلے یہ سب کچھ پتا چل جاتا تو حکومت نہ لیتا، طاقت ان کے پاس اور گالیاں روزانہ ہمیں پڑ رہی تھی، ایکسٹینشن سے پہلے والے جنرل (ر) باجوہ بڑی مدد کرنے والے تھے، اس وقت ہم ایک پیج کی بات کرتے تھے، کورونا کے دوران جنرل (ر) باجوہ کے ساتھ بڑا اچھا تعاون کیا، جنرل باجوہ نے احتساب نہ ہونے کا بہت نقصان کیا، این آر او ٹو جنرل باجوہ نے دیا، جنرل (ر) باجوہ نے رجیم چینج اور این آر او ٹو دے کر بہت نقصان پہنچایا۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں بہت چوری ہو رہی ہے، تگڑی حکومت ہی چوری کو ختم اور ملک میں اداروں کو ٹھیک کر سکتی ہے، میری پارٹی کا منشور ہی انصاف لانا ہے، لوگ گالیاں مجھے نکالتے ہیں اور نیب جنرل (ر) باجوہ کے نیچے تھا، سنیئر رہنماؤں اور دو آرمی افسران نے کہا ایکسٹنشن ضروری ہے، انہوں نے کہا جنرل باجوہ نے کہا اگر ابھی ایکسٹنشن نہ دی تو آگے پھر ان کیلئے مشکل ہو گی، دو ملٹری اور چار میرے پارٹی کے لوگ ہیں، چھ گواہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غلطی تو میری ہے جو مرضی کوئی ایڈوائس کرے، کہا جا رہا تھا کہ عمران خان پر ریڈ لائن لگا دی، (ن) لیگ میں چلے جاؤ، پولٹیکل انجینئرنگ نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، موجودہ الیکشن کمشنر پر کسی کو اعتبار نہیں، جب تک شفاف الیکشن نہیں ہو گا تب تک طاقت ور حکومت نہیں آسکتی، جنیوا کانفرنس میں بھارت نے ہمارا مذاق اڑایا۔
عمران خان نے کہا کہ مغربی ممالک کے وزرائے اعظم، وزیر سادگی اختیار کرتے ہیں، مغربی ممالک ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اگر ملک میں دوبارہ سیاسی انجینئرنگ کر کے کمزور حکومت لائی گئی تو پھر کچھ نہیں کر سکیں گے، گزشتہ حکومت کو چلانا بڑا مشکل اور عذاب تھا، میں سمجھتا تھا سٹیبلشمنٹ اور میرا ایک ہی مفاد ہے، میں تو اقتدار میں آکر پیسہ بنانے نہیں آیا تھا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ سری لنکا کو آئی ایم ایف نے آدھی فوج کرنے کا کہا ہے، جب ملک کمزور ہوتے ہیں تو قرضے دینے والے ملک آرڈر دیتے ہیں، اسی لیے میں کہہ رہا تھا جب ہم قرض لیں گے تو وہ پھر آرڈر بھی دیں گے، مجھے فیلنگ تھی کہ جنرل باجوہ بھی میرے جیسی سوچ رکھتے ہیں، جنرل باجوہ کو جب ایکسٹنشن دی تو ایک اور باجوہ سامنے آگیا، جنرل باجوہ کہتے تھے احتساب پر زور نہ لگائیں۔