لاہور: (سلمان غنی) پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت ہونے اور سابق وزیراعظم عمران خان کا بیان حلفی غلط قرار دینے پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ ملکی سیاست پر غالب آ چکا ہے اور اس طرح سے ملک میں جاری پہلے سے تنائو ٹکرائو اور محاذ آرائی کی کیفیت میں اضافہ ہو چکا ہے۔
حکمران اتحاد عمران خان اور ان کی جماعت کی ساکھ پر اثر انداز ہونے کیلئے مؤثر مہم چلائے ہوئے ہیں۔ خصوصاً وزیراعظم شہبازشریف کا یہ بیان کہ اس فیصلہ کے نتیجہ میں عمران خان اب جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کے نتیجہ میں گیند وفاقی حکومت کی کورٹ میں آ گیا ہے اور اب وفاقی حکومت اس فیصلہ کی بناء پر تحریک انصاف کے مستقبل اور عمران خان کی نااہلی کے حوالے سے معاملہ کو دیکھ رہی ہے اور یقینا وفاقی حکومت اس حوالے سے جو ممکنہ اقدامات ہو سکیں گے وہ کرے گی۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے اس فیصلہ کو مسترد کیا ہے اور الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کرنے کے اپنے عمل پر گامزن رہتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلہ کی حیثیت ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ والی ہے ۔اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کریں گے، جس بیان حلفی کو الیکشن کمیشن نے غلط قرار دیا تھا اس پر اسد عمر کا کہنا ہے کہ چیئرمین بیان حلفی نہیں سرٹیفکیٹ دیتا ہے ۔
اب اس حوالے سے تلوار مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں پر بھی لٹکتی نظر آ رہی ہے اور اس مسئلہ کے بعد سیاسی جماعتوں کو اپنے انتخابات اور الیکشن کے اخراجات کے حوالے سے محتاط ہونا پڑے گا۔ مذکورہ کیس اور فیصلہ کے حوالے سے ایک بات اہم ہے کہ یہ کیس الیکشن کمیشن میں عمران خان کی کسی مخالف جماعت نے نہیں خود ان کی جماعت کے ایک بانی رکن اور دوست اکبر ایس بابر نے دائر کیا تھا اور 2011ء میں دائر کئے جانے والے اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت جنوری2015ء میں شروع ہوئی اور اس دوران عدالت عظمیٰ نے حنیف عباسی کے کیس کے ضمن میں یہ حکم الیکشن کمیشن کو دیا تھا۔ مذکورہ مقدمہ کی تفصیلات سے ثابت ہوا کہ تحریک انصاف نے 34امریکی شہریوں سمیت351 غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز لئے ان میں بڑا نام ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈز کے حوالے سے اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا کہ کیوں نہ ان کے اکائونٹس ضبط کر لئے جائیں۔ جہاں تک مذکورہ فیصلہ کی اہمیت کا سوال ہے تو اس کے بڑے وسیع اثرات ہوں گے۔
فیصلہ کے بعد ابھی تک خود سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس پر کوئی واضح ردعمل تو نہیں آیا لیکن نظر یہ آ رہا ہے کہ وہ ایسی وضاحت دینے کی بجائے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس فیصلہ پر اس کے میرٹ کے مطابق عمل درآمد ہو گیا تو پاکستانی سیاست میں غیر ملکی مالی مداخلت اور فنڈنگ کے راستے بند ہو جائیں گے۔ جہاں تک مذکورہ فیصلہ پر حکمران اتحاد اور ان میں شامل جماعتوں کی جانب سے خوشی کے اظہار کا تعلق ہے تو وہ یہ مت بھولیں کہ یہاں معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں دیگر جماعتوں کے حسابات بھی کھلیں گے ۔ فیصلہ سے یہ بات بھی ظاہر ہو گئی ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ اس مقدمہ کی کارروائی کو پی ٹی آئی نے30مرتبہ ملتوی کرایا۔کمیشن کی جانب سے 21مرتبہ دستاویزات طلب کرنے پر دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، 9مرتبہ اس مقدمہ کو ناقابل سماعت قرار دلوانے کیلئے عدالتوں سے رجوع کیا گیا اور 9 مرتبہ ہی اپنے وکیل لائے گئے۔ اب پھر سے الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج کی کال ظاہر کر رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے معاملات صاف نہیں تھے اور اب اس فیصلہ کے نتیجہ میں پارٹی کا مستقبل اور لیڈر شپ کی شہرت پر تلوار لٹکتی نظر آ رہی ہے۔
پنجاب کے سیاسی محاذ پر ابھی حکومت سازی کا عمل پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا تو سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پنجاب میں 18 وزراء کی لسٹ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو تھما دی گئی ۔ان سارے وزراء کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے جبکہ ان میں ق لیگ کا کوئی وزیر شامل نہیں۔ اطلاعات کے مطابق وزراء کے ساتھ ان کے محکموں کا فیصلہ بھی عمران خان نے اپنے ہاتھ سے جاری شدہ احکامات میں کردیا ہے۔ لہٰذا وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کا امتحان دنوں میں ہی شروع ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق صوبائی وزیر قانون کیلئے پہلی مرتبہ منتخب ہونے والے خرم ورک کا نام دیا گیا ہے جبکہ خود ان کی اس جماعت کے سینئر رکن راجہ بشارت کو صرف پارلیمانی امور کا وزیر بنانے کو کہا گیا ہے۔ راجہ بشارت کے ساتھ یہ سلوک غالباً چودھری پرویز الٰہی سے ان کے قرب کی وجہ سے ہوا ہے۔