اسلام آباد:(دنیا نیوز) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا، ایسے اہداف طے کیے جائیں جنہیں تبدیل نہ کیا جاسکے، حکومت کے پاس ایک سال تین ماہ کا وقت ہے، لانگ ٹرم پالیسیاں نہیں بنا سکتے، صوبوں سے مل کر جامع معاشی پلان بنائیں گے، پالیسیوں میں تسلسل کیلئے میثاق معیشت ناگزیر ہے، ہم نے بڑے سخت فیصلے کیے ہیں جو آسان نہیں تھے۔
پری بجٹ بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کانفرنس کے تمام شرکاء کے شکرگزار ہیں، ان کی طرف سے دی جانے والی تجاویز کا خیرمقدم کرتے ہیں، ملکی ترقی کیلئے تاجروں اور ماہرین کی خدمات قابل تحسین ہیں، ان کی طرف سے دی گئی اچھی تجاویز پر حکومت عمل کرے گی۔ 90ء کی دہائی میں پاکستانی روپے کی قدر بھارتی کرنسی سے بہتر تھی، ماضی میں بھارت نے ہمارے ترقیاتی منصوبوں کی تقلید کی۔
انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی کیلئے دیہی علاقوں کو ترقی دینا ہو گی، دیہات میں شہروں جیسی تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات سے وہاں پر شہر کی طرز پر ترقی کی جا سکتی ہے، دیہی علاقوں سے شہروں میں منتقلی سے شہروں پر بوجھ میں اضافہ ہو گا، پاکستان کی آبادی کا 65 فیصد علاقہ دیہی ہے، ہم نے یہاں زراعت کو ترقی دینی ہے، دیہات کو ترقی یافتہ پاکستان کا حصہ بنانا ہے، وہاں پر اعلیٰ تعلیم سے یہ ممکن ہے، دانش سکول دیہی علاقوں میں قائم ہوئے جن کا معیار تعلیم ایچی سن کالج کے برابر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جو پاکستان کی معیشت کو ترقی دے سکتا ہے، ہم ساڑھے 4 ارب ڈالر کا پام آئل درآمد کر ر ہے ہیں ، کیا اس کی پیداوار ہمارے ملک میں نہیں ہو سکتی، ہمارے ملک میں کس چیز کی کمی ہے، ہم نے جدید ٹیکنالوجی سے اپنی اجناس بڑھانی ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ زرعی شعبہ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے، معاشی حکمت عملی کی تیاری میں کاروباری طبقہ سے رہنمائی لی جائے گی، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ملکی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے، 18ویں ترمیم کے بعد وسائل کا زیادہ حصہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے جبکہ وفاق کے پاس کم حصہ رہ گیا ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر جامع معاشی پلان بنایا جائے گا، اس کیلئے ہر قدم پر بزنس کمیونٹی کی رہنمائی کی ضرورت ہو گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ زراعت، صنعت اور دیگر شعبہ جات میں ٹاسک فورسز قائم کریں گے تاکہ ایک جامع منصوبہ لے کر آگے بڑھیں، ہم نے ایک سال تین ماہ کی رہ جانے والی حکومتی مدت کیلئے قلیل اور وسط مدتی منصوبے بنانے ہیں، اسی لئے میثاق معیشت کی دعوت دیتے ہیں تاکہ میثاق معیشت کے تحت ایسے اہداف طے کئے جائیں جنہیں تبدیل نہ کیا جا سکے، پالیسیوں میں تسلسل کیلئے میثاق معیشت ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کپاس درآمد کرکے ویلیو ایڈیشن سے زرمبادلہ کما رہا ہے، ہمارے ملک میں 2014ء میں کپاس کی 14 ملین گانٹھوں کی پیداوار ہوئی، بنگلہ دیش کو ہم سے پہلے جی ایس پی پلس کا درجہ ملا، ہمیں اپنی کارکردگی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ دن رات ان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں، ایسی جامع منصوبہ بندی کی جائے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں یاد رکھیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں اور خسارے پر بات ہوتی رہے گی، ہم یہاں ایسی بات نہیں کریں گے کہ جس سے پوائنٹ سکورنگ کا تاثر ملے۔ گوادر میں تمام ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں، شہریوں کوپینے کا صاف پانی نہیں مل رہا، وہاں بجلی نہیں، ایئرپورٹ پانچ سال بعد بھی 36 فیصد مکمل ہوا ہے، پانی کی اب نئی سکیم بنائی گئی ہے، اس طرح قومیں نہیں بنتیں، بطور قوم باتوں کی بجائے عملی طور پر کام کرنا ہو گا، ہمارے پڑوسی دوست ملک نے اس کے سامنے بندرگاہ بنا لی لیکن ہماری ڈیپ پورٹ ہونے کے باوجود بڑے جہاز یہاں لنگر انداز نہیں ہو سکتے، ہم نے بطور قوم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ منصوبے بنا کر ان پر عمل کرنا ہے، ہم مزید وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، پاکستان کو اﷲ نے بہت کچھ دیا ہے۔
انہوں نے شرکاء سے کہا کہ وہ اپنے وقت، صلاحیتوں اور تجربہ سے اس منصوبہ بندی میں مدد کریں، ہمارا مقصد برآمدات بڑھانا ہے، رواں سال 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑی، ایک ارب ڈالر اس پر خرچ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ قیمتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ملک کیلئے استفادہ نہیں کیا جا سکا، ہمارے پاس زرخیز زمینیں ہیں، باصلاحیت اور ہنرمند محنت کش طبقہ ہے، برآمدات کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے، برآمدات بڑھانے کیلئے مؤثر حکمت عملی سے ملکی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں لگنے والے چار پاور پلانٹس میں سے 1250 میگاواٹ کا سستا ترین پاور پلانٹ 2020ء میں فعال ہو جانا چاہئے تھا تاہم یہ منصوبہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکا، اس کی تاخیر کا ذمہ دار کون ہے، قوم کو اس کا حساب کون دے گا۔ جتنے اچھے منصوبے بنائیں اگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو گا تو بے سود ہیں، افسر شاہی کا یہ رونا جائز ہے کہ انہوں نے کام کیا اور انہیں پکڑ کر نیب کے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا، ان بیورو کریٹس نے پاکستان کے اربوں روپے بچائے۔ کانفرنس میں شرکاء کی جانب سے دی جانے والی تجاویز کو حقیقت کا روپ دیں گے۔
وزیراعظم نے اپنی حکومت کی ترجیحات بتاتے ہوئے کہا کہ برآمدات پر مبنی صنعت جس میں ٹیکسٹائل کا اہم کردار ہے وہ اولین ترجیحات میں شامل ہے، زرعی پیداوار میں اضافہ کیلئے ایگری انڈسٹریل انویسٹنمٹ کی طرف جائیں گے، گلف میں ٹیولپ کے بھرے جہاز پڑوسی ملک سے آتے ہیں، ہمارے پاس انڈسٹری اور ٹیکنالوجی ہو تو ہمارے پھل دنیا کی مارکیٹوں میں بہترین جگہ بنا سکتے ہیں، برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی حکومت کی سب سے بڑی ترجیح ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں، اس کیلئے ترکی، چین اور جاپان سے بات کی ہے، پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہشمند کمپنیوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی وجہ سے رکاوٹیں ہیں، اگر نگرانی اور تڑپ ہو تو پاکستان آگے بڑھے گا، آج ترکی، چین اور جاپان ہم سے ناراض ہیں، گذشتہ حکومت نے دوست ممالک اور سرمایہ کاروں کو ناراض کیا، دوست ممالک سے تعلقات کو نئی جہت دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ٹی انڈسٹری کو فروغ دے کر برآمدات کو 15 ارب ڈالر زتک لے جانے کا وزارت آئی ٹی کو ہدف دیا ہے اس کیلئے میں بھی وزیر آئی ٹی کے ساتھ بیٹھوں گا، بھارت کی آئی ٹی کی برآمدات 200 ارب ڈالرز ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں ہماری برآمدات 4 ارب ڈالرز سے بھی کم ہیں، بھارت میں بھی بیورو کریسی کیلئے ہم سے زیادہ سرخ فیتہ ہے تاہم اتنی زیادہ برآمدات کیسے ممکن ہوئیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں خصوصی صنعتی زونز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہمیں اس طرف جانا ہو گا، اس کیلئے ہر چیز مکمل میرٹ پر ہو گی، کوئی سٹہ بازی نہیں ہو گی ۔ ماضی میں بنائے گئے صنعتی زونز میں لینڈ مافیا آ گیا، وہاں کوئی انڈسٹری نہیں لگی، جس طرح ہم نے بہاولپور میں سولر انرجی کیلئے اراضی فراہم کی اسی طرح خصوصی اقتصادی زونز کیلئے سرمایہ کاروں کو زمین ڈویلپ کرکے دیں گے اس حوالہ سے مفتاح اسماعیل کو پہلے ہی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں، یہ کاروباری طبقہ پر احسان نہیں بلکہ سرمایہ کاری کیلئے مراعات ہیں، ہمیں اپنی برآمدات بڑھانے کیلئے انہیں مراعات دینا ہوں گی، اہداف متعین کرتے ہوئے برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا، اگر ہم ایٹمی قوت بن سکتے ہیں تو زرعی اور صنعتی قوت کیوں نہیں بن سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ داسو اور بھاشا ڈیم اگر حکومتی وسائل سے بن جائیں تو یہ بڑی بات ہے، ہمیں قومی مفاد کے منصوبوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بنانا ہو گا، ہمیں قابل تجدید توانائی کے حصول پر توجہ دینا ہو گی، تھر اور بلوچستان میں کوئلہ سے فائدہ اٹھانا ہو گا، اس کیلئے سرمایہ کار تجاویز دیں، شیل اور ٹائٹ گیس کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں، تیل و گیس کی درآمد کیلئے سالانہ 20 ارب ڈالر پاکستان صرف کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگا کر سالانہ اڑھائی ارب روپے بچت کی، غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا ہو گا۔ نجکاری کمیشن کا اجلاس طلب کیا ہے۔ اتحادی حکومت نے اختلاف رائے کے باوجود قومی مفاد میں کئے جانے والے مشکل فیصلوں کی حمایت کی، انشاء اﷲ یہ دوڑ جیتیں گے، سخت اور مشکل وقت ضرور ہے، اس ملک میں ہمیشہ غریب طبقہ نے سختی برداشت کی، عوامی فلاحی منصوبوں کے ذریعے غریب آدمی کی قسمت بدل دیں گے، ہم 7 کروڑ افراد کو ماہانہ 2 ہزار روپے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جذبہ ایثار کے تحت ہمیں غریب آدمی کا احساس کرنا ہو گا، رئیل اسٹیٹ کے پاس جو نان پروڈکٹیو اثاثے ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے۔ دنیا میں اراضی محدود ہے اس کو ہم بڑھا نہیں سکتے، بدقسمتی سے ہمارے شہر پھیلتے جا رہے ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں یورپ، چین، ترکی سمیت دیگر ممالک کثیر المنزلہ عمارات کی طرف جا رہے ہیں، ہم نے اس طرف جانا ہے، ہمیں زرعی مقاصد کیلئے اراضی چاہئے، سیاسی مفادات اور مقاصد کیلئے انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف مؤقف دیں گے، ہم نے ہمیشہ ایک دائرہ میں رہ کر سیاست کی ہے، دوست ممالک کی ناراضگی اور داغ مٹانے ہیں، انہیں اعتماد میں لینے کیلئے کوشش کریں گے۔
وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل
وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان سپیڈ کے ساتھ کام کرکے قومی معیشت کو درپیش چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے گی، جامع اور پائیدار اقتصادی نمو اور برآمدات میں اضافہ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کے اہم اہداف ہوں گے، نئے مالی سال میں زری اور مالیاتی استحکام کو یقینی بنانا اور خسارے کو 5 فیصد کی سطح پر لانا ہمارا ہدف ہے، جی ڈی پی کی نمو 5 سے لے کر 6 فیصد تک مقرر کرنے کا امکان ہے، افراط زر پر قابو پانے کیلئے اقدامات ہوں گے، نئے مالی سال میں حکومت ہدف پر مبنی سبسڈی دے گی، مجموعی طور پر ساڑھے 8 کروڑ پاکستانیوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ مشاہرہ دیا جائے گا، سابق حکومت نے مشکل فیصلے ہمارے لئے چھوڑے لیکن ہماری نیت صاف ہے، حالات مشکل ہیں لیکن ہم معیشت کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔
وفاقی بجٹ کے حوالہ سے بزنس، آئی ٹی، زراعت اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور شراکت داروں سے مشاورت کیلئے منعقدہ پری بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم کی یہ خواہش تھی کہ بجٹ مرتب کرتے وقت تمام شراکت داروں سے مشاورت کی جائے اور ان کی آراء حاصل کی جائے۔ اس وقت معیشت کے حوالہ سے مشکلات موجود ہیں اور مل جل کر آگے بڑھنا ہے، تمام شعبوں کو ساتھ لے کر آگے جائیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جب موجودہ حکومت نے اپنے اختیارات سنبھالے تو پاکستان دنیا میں افراط زر کے حوالہ سے تیسرا بڑا ملک تھا، گذشتہ چار سال میں پاکستان کے 2 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے، 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہو گئے، 1952ء کے بعد پہلی مرتبہ ہماری منفی گروتھ ہوئی جس سے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا، پاکستان کے قرضوں میں اضافہ کی شرح زیادہ رہی، اس سال 5 ہزار 600 ارب روپے خسارے کا اندیشہ ہے، ہمارے گذشتہ پانچ سالہ دور میں اوسط خسارہ 1650 ارب روپے تھا جبکہ جاری مالی سال میں 5600 ارب روپے کا اوسط خسارہ متوقع ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 2017-18ء میں جی ڈی پی کے لحاظ سے خسارہ کی شرح 6.5 فیصد تھی، پی ٹی آئی کے پہلے سال میں مالی خسارہ 9.1 فیصد ہو گیا، اس سے اگلے سال یہ 7.1 اور پھر 8.1 فیصد آیا، یہ ستم ظریقی ہے کہ سابق حکومت نے دسمبر میں آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں پرائمری خسارہ 25 ارب روپے تک کا ہدف تھا لیکن اس سال متوقع پرائمری خسارہ 1332 ارب روپے ہو گا ، ان خساروں کی وجہ سے ہمارے قرضوں میں نمایاں اضافہ ہوا، مسلم لیگ (ن) کے دور میں قرضہ کی اوسط 2132 ارب روپے رہی جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں یہ اوسط 5177 ارب روپے ریکارڈ کی گئی ہے، ہم نے اوسط 2132 ارب روپے کے قرضوں میں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا، بجلی اور گیس کے پلانٹس لگائے گئے، گوادر کو ترقی دی گئی جبکہ موٹرویز بھی بنائی گئیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ لیاقت علی خان سے لے کر ناصر الملک تک کی حکومتوں نے 70 برسوں میں 25 ہزار ارب روپے کے قرضے حاصل کئے جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں 20 ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا گیا، ملکی تاریخ میں مجموعی قرضوں میں سب سے زیادہ 80 فیصد تناسب کے ساتھ عمران خان کی حکومت نے قرضہ لیا ہے، نئے مالی سال میں ہم نے 3900 ارب روپے کا قرضہ واپس کرنا ہے۔ گیس اور بجلی کے شعبہ کا گردشی قرضہ موجودہ حکومت کو ورثہ میں ملنے والا دوسرا بڑا مسئلہ ہے، بجلی کے شعبہ میں گردشی قرضہ 2500 جبکہ گیس کے شعبہ میں 1500 ارب روپے ہے، جب تک ہم بجلی اور گیس کے شعبہ میں اصلاحات نہیں لاتے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مجموعی طور پر نئے مالی سال میں 21 ارب ڈالر کا قرضہ ہم نے واپس کرنا ہے، حسابات جاریہ کا خسارہ 16 ارب ڈالر تک متوقع ہے، نئے مالی سال میں یہ خسارہ ہم کم کر سکتے ہیں لیکن اس سے معیشت رک جائے گی۔
اسی طرح نئے مالی سال میں زرمبادلہ کے ذخائر کو 18 ارب ڈالر کی سطح پر لانا ہو گا، اس کیلئے ہمیں 40 ارب ڈالر کا انتظام کرنا ہے اور انشاء اﷲ اس میں ہم کامیاب ہوں گے، گذشتہ دو ماہ میں ہم نے سب سے پہلے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا اور آئی ایم ایف کے ساتھ جلد معاہدہ ہو جائے گا، حکومت نے سخت فیصلے کئے ہیں لیکن ایسا کرنا ناگزیر تھا، پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کی وجہ سے حکومت کو ماہانہ 120 ارب روپے کا نقصان ہو رہا تھا جبکہ پوری حکومت چلانے کا ماہانہ خرچہ 42 ارب روپے ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ سبسڈی نہیں دی جائے گی اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بھی وصول کی جائے گی، اگر ہم شوکت ترین کے فارمولے پر چلتے تو پٹرول کی قیمت 300 روپے فی لٹر تک جانا تھی مگر ہم نے ایسا نہیں کیا، فروری میں جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی حکومت ختم ہو رہی ہے تو انہوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں منجمد کر دیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ فروری میں سابق وزیراعظم نے روس کا دورہ کیا، اس وقت کے کوئی بھی اخبارات مجھے اٹھا کر دکھائیں کہ اس دورے میں تیل کا کوئی ذکر ہو، حماد اظہر نے 30 مارچ کو روس کا خط لکھا کہ ہمیں تیل دیا جائے جس کا جواب ابھی تک نہیں آیا، ہم نے روس میں اپنے سفارتکاروں سے بھی کہا کہ وہ اس معاملہ کا جائزہ لیں، روسی حکام نے ہمیں بتایا کہ پاکستان کے ساتھ 2015ء میں گیس پائپ لائن پر معاہدہ ہوا تھا اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ روس سے گندم کی خریداری کیلئے ای سی سی سے منظوری ہمارے دور میں ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے 8 ماہ تک ڈیوٹی ڈرا بیک کی سمری کو روکے رکھا اور اس مد میں پیسے جاری نہیں کئے لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ حکومت جا رہی ہے تو 30 مارچ کو ای سی سی کا اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی گئی، سابق حکومت نے یہ مشکل فیصلے ہمارے لئے چھوڑے تھے لیکن ہماری نیت صاف ہے، ہم نے اس ملک کو سنوارنا ہے، حالات مشکل ہیں لیکن ہم معیشت کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ موجودہ حکومت نے سعودی عرب، چین، یو اے ای اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ دوبارہ رابطے استوار کئے، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلال بھٹو زرداری نے چینی حکام سے رابطے کئے جس کے بعد چین نے مارچ میں پاکستان کیلئے ختم ہونے والے قرضے کو دوبارہ رول اوور کر دیا ہے، اس کے نتیجہ میں پاکستان کو سالانہ 23 ملین ڈالر کی بچت ہو گی، چین نے شرح سود میں بھی کمی کی ہے، سعودی عرب دسمبر میں پاکستان کیلئے اپنے قرضے کو ری رول کرے گا، اس کے علاوہ سعودی عرب مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی میں اضافہ بھی کر سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں مؤخر ادائیگی پر ایل این جی بھی مل سکتی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے مالی سال میں زری اور مالیاتی استحکام کو یقینی بنانا اور خسارے کو 5 فیصد کی سطح پر لانا ہمارا ہدف ہے، جی ڈی پی کی نمو 5 سے لے کر 6 فیصد تک مقرر کرنے کا امکان ہے، اس کے علاوہ افراط زر پر قابو پانے کیلئے اقدامات ہوں گے، نئے مالی سال میں حکومت ہدف پر مبنی سبسڈی دے گی، مجموعی طور پر ساڑھے 8 کروڑ پاکستانیوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ مشاہرہ دیا جائے گا۔
بجٹ اور معیشت کے حوالہ سے درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا گروتھ کا ماڈل صحیح نہیں ہے، ماضی میں حکومتیں سیٹھوں کو مزید امیر کرتیں تاکہ کارخانے لگا کر لوگوں کا روزگار دیں لیکن اس کا ہماری درآمدات پر برا اثر پڑا، ہماری درآمدات بڑھتی گئیں، صارفین کیلئے مصنوعات کی درآمدات میں اضافہ ہوتا گیا، ہمیں درآمدات کے متبادل مقامی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی، برآمدات میں اضافہ اور درآمدات کے متبادل مقامی پیداوار کو یکساں رکھنا ہماری ترجیح ہو گی، پاکستان 3.5 ملین ٹن پام، سویابین اور دیگر خوردنی تیل درآمد کر رہا ہے، اس وقت خوردنی تیل کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمت 1800 ڈالر ہے، جاری مالی سال میں ہم 4 ارب ڈالر مالیت کا خوردنی تیل درآمد کر چکے ہیں، اگلے سال ہمیں 7 ارب ڈالر خوردنی تیل کی ضرورت ہو گی جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے، اس صورتحال میں ہمیں خوردنی تیل کی مقامی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی، ہم زراعت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کریں گے، کسانوں کو معاونت فراہم کی جائے گی، زرعی بیجوں پر کام کرنا ہو گا، برآمدات میں اضافہ کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، بلوچستان، چولستان اور ملک کے پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم، بند اور ڈرپ ایریگیشن کو فروغ دیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جامع اور پائیدار اقتصادی نمو اور برآمدات میں اضافہ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کے اہم اہداف ہوں گے، ہم آئوٹ آف دی وے جا کر مسائل کے حل کیلئے کوششیں کریں گے، حکومت پاکستان سپیڈ کے ساتھ کام کرکے قومی معیشت کو درپیش چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ اسی سے ہمارے بیشتر خسارے کم یا ختم ہو جائیں گے۔