اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو احتجاج کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 اور جی 9 کے درمیان جگہ فراہم کرنے اور گرفتار وکلا کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پی ٹی آئی لانگ مارچ کے شرکا کو ہراساں کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کی، بنچ کے دیگر دو ججز میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس سیّد مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہوئے۔
ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا جس کے بعد پی ٹی آئی کوجی نائن اورایچ نائن کےدرمیان احتجاج کی اجازت مل گئی۔ تحریک انصاف کی سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی پر اجازت دی گئی، عدالت نے سری نگر ہائی وے پر ٹریفک بہائو میں خلل نہ ڈالنے کی ہدایت کی۔
پی ٹی آئی کارکنوں، قائدین کو گرفتار نہ کیا جائے: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی کارکنوں، قائدین کو گرفتار نہ کیا جائے، سیاسی بنیادوں پر گرفتار لوگوں کو رہا کیا جائے، امید کرتے ہیں کہ ٹاپ لیڈرشپ اپنے ورکرز کو قانون ہاتھ میں نہ لینے کی ہدایت دے گی، امید کرتے ہیں کہ انتظامیہ طاقت کا استعمال فوری طور پر ختم کردے گی، پولیس پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے نہ مارے، مظاہرین پُر امن رہیں گے، املاک کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، تحریک انصاف دی گئی گائیڈ لائن پرعمل کرے گی، وکلا کو ہراساں نہ کیا جائے، راستوں کوبھی کھولاجائے، امید کرتے ہیں تمام معاملات کو جمہوری انداز میں حل کیا جائے گا۔
عدالت نے سرینگر ہائی وے پر ٹریفک بہائو میں خلل نہ ڈالنے کی ہدایت دی اور تمام گرفتار وکلاء کو فوری رہا کرنے کا حکم دیدیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگ لاکھوں میں ہونگے، اس پر بابر اعوان نے کہا کہ لاکھوں کی تعداد تسلیم کرنے پر شکر گزار ہیں۔
راستوں سے فوری رکاوٹیں ہٹانے کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ نے راستوں سے فوری رکاوٹیں ہٹانے کی استدعا مسترد کردی اور 48 گھنٹوں میں پکڑی جانے والی ٹرانسپورٹ چھوڑنے اور حکومت اور اپوزیشن کو رات 10 بجے ملاقات کرنے کا حکم دیدیا۔
اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومتی اور تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات رات 10 بجے چیف کمشنر آفس میں ہوگی، حکومتی مذاکراتی ٹیم میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی، ن لیگ کے ایاز صادق، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا اسعد محمود، ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری، آغا جان، خالد مگسی، اعظم نذیر تارڑ اور احسن اقبال شامل ہوں گے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے کمیٹی میں بابر اعوان، فیصل چودھری، عامر کیانی اور علی نواز اعوان شامل ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی کیس ختم نہیں ہوا، کل پھر کیس کو سنیں گے، جس ٹرانسپورٹ کے خلاف سنگین ایشو نہیں، انہیں ریلیز کیا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ احتجاج کب ختم ہوگا، جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ ہمارا احتجاج آج سے شروع ہوا ہے، جسٹس اعجا الاحسن نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا یہ احتجاج لا محدود ہوگا ، جس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ پارٹی لیڈر شپ فیصلہ کرے گی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے: جسٹس اعجاز الاحسن
اس سے قبل سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے، سکولز اور ٹرانسپورٹ بند، تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دئیے گئے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے اور دیوالیہ ہونے کے در پے ہے، کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں، معلومات لینے کی مہلت دی جائے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب، کیا آپ کو ملکی حالات کا علم نہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔
اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کی کہ عوام کے تحفظ کیلئے حفاظتی اقدامات ناگزیر ہیں، تحریک انصاف نے خونی مارچ کی دھمکی دی ہے، مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کیلئے مناسب جگہ فراہم کرنے کا حکم دے دیا جبکہ تحریک انصاف کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد گھروں کو جانے کی ہدایت کی ہے۔