اسلام آباد: (دنیا نیوز) او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا جس میں اسلامی تعاون تنظیم نے فلسطین، کشمیر کے منصفانہ مقاصد کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کیا ہے۔
وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ او آئی سی کے اختتامی اجلاس کے بعد سیکرٹری جنرل او آئی سی حصین براہیم طحہ نے کہا کہ میں کانفرنس کے انعقاد پر انتظامیہ اور پاکستان کے عوام کو سراہتا ہوں، یہ کانفرنس یوم پاکستان کے موقع پر منعقد ہوئی جس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، کانفرنس کے ایجنڈے میں امن و سلامتی و اسلامو فوبیا کے معاملات کو شامل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں افغانستان پر بات چیت بھی ہوئی، گزشتہ کانفرنس میں ہم نے افغانستان پر خصوصی نمائندے کی تقرری کی بات کی تھی، ہم نے افغانستان پر خصوصی نمائندے کا تقرر اور اینڈاومنٹ فنڈ قائم کر دیا ہے جبکہ نائیجیریا کے لیے 1 ملین ڈالرز سے زائد رقم بھی موصول ہوگئی۔
او آئی سی سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ فلسطین ہمیشہ سے ہمارے ایجنڈا میں سر فہرست رہا ہے، ہم نے جموں وکشمیر پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا، ہم نے وزیر خارجہ پر واضح کیا کہ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے جس پر ہماری حمایت اُن کے ساتھ ہے،ہم نے واضح کیا کہ حق استصواب رائے کشمیریوں جا حق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ او آئی سی کا ہیڈ کوارٹر اکثر اور بالخصوص افریقی ممالک سے ہزاروں میل دور ہے، جس کی وجہ سے سب کو مسائل کا سامنا رہتا ہے، اس صورت حال میں آج دوپہر کو افریقا میں خصوصی نمائندے کی تقرری کا فیصلہ کیا گیا جو دورہ کر کے او آئی سی کو رپورٹ پیش کرے گا۔
او آئی سی سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے افریقی ممالک کو ان مسائل میں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے، یورپ میں تنازع نے دنیا میں بے چینی پیدا کی ہے کیونکہ دنیا کے اس حصے میں بھی لاکھوں مسلمان رہتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی
دوسری طرف وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 48ویں اجلاس میں وزارتی سطح پر 46 اور 800 کے قریب وفود نے شرکت کی، جس پر ہم سیکرٹری جنرل او آئی سی اور او آئی سی سیکرٹریٹ کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ او آئی سی اجلاس میں پہلی بار کسی بھی چینی وزیر خارجہ کی شرکت ہوئی جو تمام ممالک کے لیے باعث افتخار اور تسلی کا سبب بھی بنی۔ شاہ محمد قریشی نے کہا کہ اجلاس میں مسلم دنیا کو اسلامی ممالک سے تعلقات بڑھائے کا پیغام دیا اور بی آر آئی کا حصہ بننے والے ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اس فورم کی اہمیت کو اجاگر کیا، اس فورم کو مزید فعال بنانے کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے، بطور چیئرمین وزرائے خارجہ کونسل میں اس فورم کو دوبارہ مرکزیت میں لانے اور اتحاد مضبوط بنانے کی کوشش کروں گا اور مختلف چیلنجز میں پل بن کر انہیں حل کرنے کی کوشش کروں گا۔
شاہ محمود نے کہا کہ جموں و کشمیر پر متعدد قراردادوں اور اوآئی سی کی واضح حمایت کے باوجود یہ مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے، اسی طرح فلسطین میں بھی قبضہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں و مظالم جاری ہیں، ہم دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر قراردادوں سے آگے عملدرآمد کی جانب جائیں گے، ہم مل کر عملدرآمد کے حوالے سے ایکشن پلان بنائیں گے، دسمبر کے او آئی سی میں ہمارا مقصد واضح تھا کہ افغانستان میں انسانی صورتحال پر عالمی توجہ دلائی جائے اور ہم اس میں کامیاب رہے، نہ صرف افغانستان پر پابندیاں نرم کی گئیں بلکہ فنڈز بھی قائم کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر پر نہ صرف اجلاس میں بات چیت ہوئی بلکہ اس کو اجاگر کیا گیا، کشمیر کانٹیکٹ گروپ کے اجلاس میں ہم نے کشمیر پر بہت اچھا تبادلہ خیال کیا، ہم نے اس پر قراردادوں سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے ایک ایکشن پلان بنا کر ہم نے اتفاق کیا کہ مختلف رکن ممالک جموں و کشمیر پر ملاقاتیں کرتے رہیں گے اور جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی ابتر صورت حال کی نگرانی کی جائے گی جبکہ نیویارک اور جنیوا میں موجود ہمارے سفارت کار اس کو مسئلے کو مزید اجاگر کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطین پر پاکستان کا موقف انتہائی واضح اور مسلسل ہے، ہم نے گزشتہ رمضان میں اپنے فلسطین پر اس کا مظاہرہ کیا، ترکی، ملائشیا اور دیگر وزرائے خارجہ سے وقت طے کر کے ہم نے نیویارک میں ایک ساتھ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا اور جنرل اسمبلی میں اس معاملے کو اٹھایا، اس طرح ہم نے فلسطینیوں کے سامنے پاکستانی موقف کا عملی مظاہرہ کیا۔