اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ میری اپنی رائے میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر مودی سرکار کی جانب سے بلایا گیا اجلاس غیر معمولی پیشرفت ہے۔ در پردہ اجلاس بلائے جانے میں یہ اعتراف پنہاں ہے کہ سب ٹھیک نہیں، تاہم 24 کو اصل حقائق اور صورتحال سامنے آئے گی۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں، ہم کسی دہشتگرد تنظیم یا اس کے سربراہ کی کبھی حمایت نہیں کر سکتے۔ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ ہم نے ہر فورم پر مصالحانہ کردار ادا کیا۔ افغان مسئلے کا حل افغانوں نے خود کرنا ہے۔
قومی ادارہ صحت میں تقریب سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی حکمت عملی واضح ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ میں نے افغان وزیر خارجہ حنیف آتمر اور سابق افغان وزیر خارجہ اور اعلیٰ سطح مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی، اس دوران افغان امن عمل پر بات چیت کا موقع ملا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کی گفتگو میں مجھے تشویش اور فکر دکھائی دی۔ اگر افغانستان 90 کی دہائی میں جاتا ہے تو پاکستان پر یقیناً دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ میں نے افغان وزیر خارجہ سے کہا کہ ہم امن کی کاوشوں میں شراکت دار ہیں لیکن شراکت داری کیلئے اعتماد کا ہونا ضروری ہے، اگر امریکا جا کر آپ نے ماضی کا راگ الاپنا ہے تو آپ کو اور خطے کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میری ترکی میں تاجکستان، ازبکستان کرغزستان، کویت اور قطر کے وزرائے خارجہ سے ملاقات ہوئی، سب سیاسی حل کی بات کر رہے ہیں۔ غیر ملکی فوج کے انخلا سے متعلق وزیر خارجہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا 60 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور ابھی سلسلہ جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں کیونکہ افغانستان کے امن سے ہمارا مفاد جڑا ہوا ہے۔ افغانستان میں قیام امن سے ہمارا روابط کے فروغ اور معاشی استحکام کا خواب مکمل ہو سکتا ہے، تاہم افغان مسئلے کا حل افغانوں نے خود کرنا ہے۔
غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ میری اپنی رائے میں مودی سرکار کی جانب سے 24 جون کے اجلاس کو غیر معمولی پیشرفت سمجھتا ہوں۔ کشمیریوں نے 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات غیر قانونی اور یکطرفہ کو یکسر مسترد کیا ہے۔ محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ بھارت سرکار کے ساتھ اقتدار میں شریک رہے لیکن انہوں نے بھی 5 اگست کے اقدامات کو تسلیم نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019ء کے اقدامات سے ہندوستان کی سیکولر ساکھ کو نقصان پہنچا جبکہ ان اقدامات کے بعد کشمیر کی سیاحت اور معیشت تباہ ہو گئی۔ کورونا وبا کے دوران کشمیری دوہرے لاک ڈائون کو بھگت رہے ہیں، اس بیک گراؤنڈ میں یہ اجلاس بلانا قابلِ غور ہے۔ در پردہ اجلاس بلائے جانے میں یہ اعتراف پنہاں ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے تاہم 24 کو اصل حقائق اور صورتحال سامنے آئے گی، ابھی اس پر رائے دینا قبل از وقت ہو گا۔