انقرہ: (دنیا نیوز) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکا کو منظم طریقے سے افغانستان چھوڑنا چاہیے کیونکہ وہاں دوبارہ نوے کی دہائی جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
یہ اہم بات انہوں نے ایک ترک ٹیلی وژن کو انٹرویو کے دوران کہی۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں اور افغانوں نے اس جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے، ہم نے 83 ہزار جانیں گنوائیں اور 128 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغان مہاجرین باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس جائیں۔ یہ صرف تبھی ممکن ہے جب افغانستان میں امن واستحکام ہوگا۔ افغانستان میں امن افغان رہنماؤں کی ذمہ داری ہے۔ افغان رہنماؤں کو بیٹھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ ترک صدر سے ملاقات میں افغان ایشو اور اسلاموفوبیا پر بات ہوگی۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں امن عمل کو بحال کرنے کی ضرورت ہے جبکہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امن دشمنوں کی پسپائی کیلئے افغان مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ناگزیر ہے: وزیرخارجہ
اس سے قبل اپنے بیان میں شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ افغانستان کی قیادت جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں، امن مخالف سپائیلرز کی پسپائی کیلئے بین الافغان مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ناگزیر ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق وزیر خارجہ کی انطالیہ سفارتی فورم کے موقع پر افغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے قومی مفاہمت کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ سے ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان دوران ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیر خارجہ نے چیئرمین افغان اعلیٰ کونسل برائے قومی کو ستمبر 2020ء میں کیے گئے پاکستان کے کامیاب دورے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم بلا تخصیص تمام افغان قیادت کے ساتھ روابط کے متمنی ہیں تاکہ افغان امن عمل اور دوطرفہ تعلقات بہتر انداز میں آگے بڑھ سکیں۔
اس موقع پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کو، اپنی پرخلوص مصالحانہ کاوشوں کے سبب امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور بین الافغان مذاکرات کے انعقاد میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اب یہ ذمہ داری افغان قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس نادر موقع کو غنیمت جانیں۔
شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ منفی بیانات اور الزام تراشیاں، محض ماحول کی خرابی کا باعث بنتی ہیں۔ ایسے منفی بیانات امن مخالف قوتوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے ترکی میں یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے جوزف بورئیل سے بھی ملاقات کی۔ جوزف بورئیل خارجہ امور کے لئے یورپی یونین کے اعلی نمائندے اور یورپی کمشن کے نائب صدر ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور یورپی یونین کے دو طرفہ تعلقات، علاقائی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی۔
ملاقات میں افغان امن عمل اور غیر قانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور یورپی یونین سٹرٹیجک انگیجمنٹ پلان پر عملدرآمد سے دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔ جون 2019ء میں طے پانے والے اس پلان سے کثیر الجہتی شعبوں میں تعاون کے فریم ورک کے لئے مضبوط بنیادیں فراہم ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کی دقتوں کے باوجود دونوں اطراف نے اپنے روابط اور بات چیت جاری رکھی جو لائق تحسین ہے۔ جی ایس پی پلس دو طرفہ طور پر مفید ثابت ہوا۔ دونوں طرف کی تجارت کے فروغ میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ جی ایس پی پلس کے تسلسل تعاون سے پاکستان اور یورپی یونین ممالک میں معیشت وتجارت مزید پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔
وزیر خارجہ نے پاکستان کی جانب سے جی ایس پی پلس سے متعلق 27 نکاتی انٹرنیشنل کنونشز پر موثر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، ایف اے ٹی ایف کی طرف سے اٹھائے گئے 27 نکات میں سے 26 نکات پر عملدرآمد مکمل کر چکا ہے۔ توقع ہے کہ فیٹف کے آئندہ اجلاس میں پاکستان کی سنجیدہ کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، گرے لسٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے گی۔
دونوں رہنماؤں نے کورونا عالمی وبا سے متعلق امور پر بھی گفتگو کی۔ وزیر خارجہ نے پاکستان میں کورونا وبا پر قابو پانے کے لئے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا۔ وزیر خارجہ نے یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے کو اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد عالمی برادری کی مسلسل انگیجمنٹ ضروری ہے۔