لاہور: (دنیا نیوز) پارلیمنٹ میں پیش کی جانیوالی کراچی طیارہ حادثہ کی رپورٹ کے مندر جات پر ماہرین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایوان میں کہا جا رہا ہے کہ پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں، یہ سب ابھی تک کیوں سوئے ہوئے ہیں ؟ کسی انٹرنیشنل کمپنی نے آڈٹ کیا تو پائلٹس جہاز نہیں اڑا سکیں گے، 50 کو چھوڑیں صرف دو جعلی لائسنس دکھا دیں، ہمارے جیسے ممالک کیلئے انفرادی طور پر سیفٹی کی تحقیقات کرنا ممکن نہیں، اگر یہی حادثہ امریکا میں ہوتا تو رپورٹ آنے میں تین سال لگ جاتے ایک ماہ میں نہ آتی۔
دنیا نیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں گفتگو کرتے ہوئے سابق ایم ڈی پی آئی اے اعجاز ہارون نے کہا پی آئی اے یونین کو سیاسی حمایت حاصل تھی، اپوزیشن اور حکومتی لوگ یونین کی حمایت کرتے رہے، پی آئی اے یونین نے میرے دور میں 3 روز تک ہڑتال کی، مجھے عہدے سے ہٹوایا تھا، بھانجوں اور بھتیجوں کو نوازا جاتا رہا۔ انکا کہنا تھا جعلی لائسنس والے پائلٹس ابھی تک کیوں کام کر رہے ہیں، انکوائری رپورٹ سول ایوی ایشن کا دفاع کرنے کیلئے بنائی گئی۔ یونین میدان میں آئے اور کہے جن کے جعلی لائسنس ہیں ان کو باہر نکالتے ہیں، جب پی آئی اے سے فیک ڈگری اور لائسنس والوں کو نکالا جائے گا تو دنیا میں کیا امیج جائے گا ؟۔ انہوں نے کہا ایوان میں کہا جا رہا ہے پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں، یہ سب ابھی تک کیوں سوئے ہوئے ہیں؟ ایسا ہوتا رہا تو بیرون ممالک میں پی آئی اے پر پابندی لگ جائے گی، پی آئی اے میں مافیا بیٹھا ہے، یونینز ختم کی جائیں، رپورٹ میں لکھا ہے ابھی ایئرٹریفک کنٹرولر کی تحقیقات ہوں گی، کنٹرولر کو انجن سے چنگاریاں نکلنے پر پائلٹ کو بتانا چاہیے تھا۔
جنرل سیکرٹری پالپا عمران نا ریجو نے کہا 62 پائلٹس پی آئی اے کے نہیں، اگر جعلی پائلٹ ہیں تو لسٹ شائع کریں اور تحقیقات کے بعد ان کو فارغ کریں۔ پی آئی اے کے 6 پائلٹس کوجعلی ڈگری کی بنا پر ہٹایا گیا، پائلٹس کے لائسنس کی تصدیق کروائی گئی، مشکوک لائسنسز کو ابھی تک منسوخ نہیں کیا گیا، جعلی لائسنس یا جعلی ڈگری والے پائلٹ کی حمایت نہیں کریں گے، ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ کیپٹن نوشاد انجم نے کہا پی آئی اے کے منیجرز نے صحیح انداز میں کام نہیں کیا، پائلٹس کا چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا گیا۔
پروگرام آن دی فرنٹ میں میزبان کامران شاہد سے گفتگو کرتے ہوئے ایئر مارشل (ر) عابد راؤ نے کہا جب بھی جعلسازی ہوتی ہے تو اوپر سے شروع ہوتی ہے، پائلٹس کا امتحان ہوتا ہے، امیدواروں کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا، حکومت کو ایک سال پہلے اسکا پتا تھا، ایکشن کیوں نہیں لیا، سی ای او ارشد ملک نے 600 پائلٹس کی ڈگریاں چیک کروانے کی کوشش کی تو سٹے آرڈر لے لیا گیا۔ جمہوری ادوار میں پی آئی اے کے ساتھ بہت برا کیا گیا، اگر کسی انٹر نیشنل کمپنی نے آڈٹ کیا تو یہ ڈاؤن ریٹ ہو جائیں گے، پائلٹس جہاز نہیں اڑا سکیں گے۔
ونگ کمانڈر (ر) نسیم احمد نے پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے کہاجب فضائی حادثہ ہوتا ہے تو تین چیزیں فیل ہوتی ہیں ایک جہاز کی ٹیکنالوجی، دوسری تربیت، تیسری وہ کس طریقہ کار کے تحت جہاز لینڈ کر رہا تھا، سب سے پہلے دیکھنا ہے کہ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کو کس طرح چلایا جا رہا ہے، انتظامیہ کیسی ہے، تحقیقات اب شروع ہوں گی کہ کاک پٹ کے باہر کیا ماحول تھا۔ مقابلے کی فضا کے باعث ایئر بس او ربوئنگ کبھی بھی ایک دوسرے کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوئیں، دونوں میں ہم آہنگی نہیں۔ حکومت کے پاس معلومات آئی ہیں ابھی تحقیقات ہونی ہیں، سی وی آر کی تمام گفتگو کو عالمی قانون نے تحفظ دیا ہے، اگر حکومت نے اس کو پبلک کرنا ہے تو اسے عدالت میں جانا ہوگا، پارلیمنٹ میں پائلٹس کی دھجیاں بکھیری گئیں، ان کو بین الاقوامی فورم پر دفاع کرنا مشکل ہوگا، جعلی ڈگری کا توسنا تھا جعلی لائسنس کی سمجھ نہیں آئی، 50 کو چھوڑیں صرف 2 جعلی لائسنس دکھا دیں، ہمارے جیسے ممالک کیلئے انفرادی طور پر سیفٹی کی تحقیقات کرنا ممکن نہیں، تحقیقات کسی اور ملک سے کروا لی جائیں، چند سیکنڈ میں فیصلہ لینا ہوتا ہے، پائلٹ کی اپنی زندگی ہوتی ہے، وہ کبھی بھی جان بوجھ کر نہیں کرتا، اگر یہی حادثہ امریکا میں ہوتا تو رپورٹ آنے میں تین سال لگ جاتے ایک ماہ میں نہ آتی۔