آٹا چینی بحران: حکومت کی کشتی ہچکولے کھانے لگی

Last Updated On 07 April,2020 08:48 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ایف آئی اے کی شوگر اور آٹے کے بحران پر رپورٹ نے ایک طوفان برپا کر دیا جس میں بظاہر حکومت وقت کی کشتی ہچکولے کھانے لگی ہے چونکہ ابھی تک تو اس رپورٹ کے مندرجات اور فائنڈنگز سامنے آئی ہیں اور دوسرے مرحلے میں 25 اپریل تک اس کی فرانزک فائنڈنگز کے بعد ذمہ داروں کیخلاف قانونی کارروائی کا عندیہ تو وزیراعظم اپنے ٹویٹ میں بھی کر چکے ہیں تو اس لحاظ سے اب یہ طوفان تھمنے والا نظر نہیں آ رہا۔ کیا اس سارے بحران میں عمران کا نظریہ مفادات کا ٹکراؤ ڈوبتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ؟ اس رپورٹ کے حوالے سے ایک کریڈٹ وزیراعظم کو دینا پڑے گا کہ یہ ان کا اقتدار میں آنے کے بعد تحقیقات کا پہلا حکم ہے جو اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مگر اس پیشرفت تک پہنچتے پہنچتے وزیراعظم کو 20 ماہ کا عرصہ لگا ہے۔

اس تمام صورتحال میں بنیادی سوال یہی ہے کہ کون ہے وہ ذمہ دار جس نے شوگر ملز کو چینی کی ملکی ضروریات ہونے کے باوجود بیرون ملک ایکسپورٹ کی اجازت دی اور سب سے بڑھ کر کون ہے وہ جس نے پنجاب حکومت کو مجبور کیا کہ وہ چینی کی برآمد پر سبسڈی دے ؟ اس تمام بحران کی اندرونی کہانی بہت پریشان کن ہے اور اپنی جگہ چشم کشا بھی ہے۔ کچھ حقائق جو ہمارے ہاتھ لگے ہیں ان کا جائزہ لینے کے بعد محسوس ہوا ہے کہ سبسڈی کی مد میں تین ارب روپے عوامی خزانے سے لٹانے والی پنجاب حکومت کو مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کر دیا گیا ہے۔

وہ حقائق کچھ یوں ہیں کہ پہلے اس معاملے میں منسٹری آف کامرس نے مشیر تجارت کی اس تجویز کی مخالفت کی کہ چینی کی برآمد پر حکومت شوگر ملوں کو سبسڈی دے۔ اس تمام معاملے میں رزاق داؤد کا اپنا کردار بھی شکوک و شبہات میں ڈوبا ہوا ہے کہ آخرکار کیوں انہوں نے اپنی ہی منسٹری کی تجویز کی مخالفت ای سی سی اور وفاقی کابینہ میں کی ؟ مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ رزاق داؤد نے جہانگیر ترین اور اس حکومت کے اعلیٰ عہدیدار کے ایما پر اپنی ہی وزارت کے سیکرٹری کی سبسڈی نہ دینے کی تجویز کی مخالفت کی۔

دوسری جانب پنجاب حکومت نے وفاق میں دونوں بڑی آئینی فورسز (وفاقی کابینہ اور ای سی سی ) کی ہدایات کو غیر قانونی طور پر نظر انداز کیا اور یوں صوبے نے غیر قانونی طور پر عوامی ٹیکس کے پیسے کو شوگر مافیا کی جیبوں میں ڈال دیا۔ افسوس یہی ہے کہ اس رپورٹ میں اس معاملے کا کوئی ذکر نہیں اور حیران کن طور پر پنجاب کی حکومت کو کلین چٹ دی گئی۔ اس رپورٹ کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ یہ ایک ایسا بدانتظامی کا بحران ہے جس نے اقتدار کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھے شخص عمران کو بھی ہلا ڈالا۔ جہانگیر ترین اپنی زبان سے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر چڑھ دوڑے ہیں۔ یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر دو گروپوں کا خوب مقابلہ ہے اور وزیراعظم نے اب اپنا وزن بظاہر جہانگیر ترین مخالف دھڑے کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

پارٹی کے اندر اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور بنی گالا کے لوگ پہلے ہی جہانگیر ترین کے مخالفین تھے مگر پارٹی اور وزیراعظم پر ان کی سرمایہ کاری کے آگے وزیراعظم بھی لاجواب تھے۔ اب لگ یہی رہا ہے کہ چینی اور گندم کے بحران کی رپورٹ میں وزیراعظم فیصلہ لے چکے ہیں کہ اب جہانگیر ترین کے بوجھ سے جان چھڑا لی جائے۔