کشمیریوں نے اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے والوں کا انگ انگ توڑ دیا

Last Updated On 07 February,2020 08:46 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے میرپور آزاد کشمیر میں یکجہتی کشمیر ریلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو خبردار کرتے ہوئے یہ پیغام دینا کہ اگر اس نے پاکستان پر حملے کی غلطی کی تو یہ اس کی آخری غلطی ہوگی، اس امر کا واضح اظہار ہے کہ پاکستان دفاعی اعتبار سے مضبوط اور کسی بھی جارحیت کے منہ توڑ جواب کیلئے ہر دم تیار ہے۔

جہاں تک بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے آزاد کشمیر پر حملے اور پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی دھمکیوں کی بات ہے تو یہ سرا سر اس کی اندرونی بوکھلاہٹ اور متنازعہ شہریت کے بل پر ہونے والے اندرونی ردعمل پر جھنجھلاہٹ کا ثبوت ہے، بھارت کی جانب سے اب تک اٹھائے جانے والے دو اقدامات، 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور متنازعہ شہریت بل نے بھارت میں غیرمعمولی صورتحال پیدا کر دی ہے، شر سے خیر کا پہلو یہ نکلا ہے کہ آج حقیقی طور پر کشمیر جیسے سلگتے ایشو کو بین الاقوامی حیثیت ملی ہے۔

دوسری جانب متنازعہ شہریت کے بل کی منظوری کے بعد یونیورسٹیز اور کالجز کے طلبا و طالبات کے ردعمل نے اب باقاعدہ عوامی سطح پر ایک تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے، جس میں اب صرف مسلمان، سکھ، عیسائی، دلت جیسی اقلیتیں شریک نہیں بلکہ تعلیم یافتہ ہندو بھی شامل ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی کے طرز عمل، انتہا پسند پالیسیوں اور اقدامات نے بھارت کا مہذب، ذمہ دار اور سیکولر تشخص گہنا دیا ہے، اب خود ہندو دانشور، ادیب اور شاعر بھی نریندر مودی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے بعد بھارت کے اپنے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ نریندر مودی اور فوجی قیادت مل کر پاکستان کے خلاف دھمکیاں لگا کر اپنے ملک کے ایشوز سے توجہ ہٹانے پر مضر ہیں۔

پاکستان کی بڑی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے خلاف اور کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے حوالے سے پاکستان کے کروڑوں عوام میں یکسوئی اور سنجیدگی پائی جاتی ہے، حکومتیں خواہ مذاکرات کی بھیک مانگیں یابھارتی قیادت کے ساتھ بیٹھنے پر اصرار کریں پاکستانی عوام ہمیشہ بھارت کو اپنے ازلی دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں، اس جذبہ نے انہیں اپنی افواج کے قریب تر کر رکھا ہے کیونکہ ہماری پاک افواج کے اندر پیدا شدہ جذبہ، ولولہ اس وقت اپنے عروج پر ہوتا ہے جب وہ اپنے سامنے بھارت جیسے دشمن کو پاتے ہیں جس کا اظہار ایک مرتبہ پھر 2019ء میں بھارت کی جانب سے فروری میں مارے جانے والے شب خون کے جواب میں اگلے ہی روز دن دہاڑے دو جنگی جہازوں کو انجام پر پہنچا کر کیا گیا، جس کے بعد پاکستان کے مقابلہ میں 10 گنا بڑا ملک اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جارحیت کی غلطی کو آخری غلطی قرار دینے کا پیغام دراصل پاک فوج کے اندر پیدا شدہ جذبہ، ولولہ ، اس کی پیشہ وارانہ اہلیت کا مظہر ہے، یہی جذبہ کشمیریوں میں بھی نظر آتا ہے جو آزادی سے کم کسی نتیجے کیلئے تیار نہیں۔ کشمیریوں کی تاریخ ساز جدوجہد نے بھارت کے اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے والوں کا انگ انگ توڑ دیا ہے اور بھارت طاقت اور قوت کے بل بوتے پر کشمیریوں کی آواز نہیں دبا سکا، نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد حالات کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر کے زمینی حقائق تبدیل کرنے کی منظم کوشش ہوئی مگر بھارتی سرکار کو کشمیر میں کہیں سے خیر نہیں پڑی یہاں تک کہ خود بھارت سرکار کے پروردہ فاروق عبداﷲ، عمرعبداﷲ، محبوبہ مفتی وغیرہ بھی کشمیریوں کی جدوجہد کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور آج بھارت کو آنکھیں دکھاتے نظر آ رہے ہیں اور قائداعظم کے نظریہ کی تائید کر رہے ہیں۔ بھارت کیلئے افغانستان ایک مثال ہے، امریکا جیسی سپر پاور 42 ممالک کے تعاون سے بھی افغانستان پر اپنا تسلط قائم نہیں کر سکی اور طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہوئی، ایسے ہی کشمیریوں کی عظیم جدوجہد کے سامنے ٹوٹتا پھوٹتا بھارت بھی نہیں ٹھہر پائے گا۔