حکمران اتحادی سیاست کی سائنس سے نابلد اور غیر سنجیدہ ہے

Last Updated On 01 February,2020 01:01 pm

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) حکومت کی جانب سے اپنے اتحادیوں کو منانے کیلئے بنائی جانیوالی کمیٹیوں کا سلسلہ نتیجہ خیز نہیں ہوا اور ایک وقفہ کے بعد حکومت نے اپنی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بلوچستان میں حکومتی اتحاد سے مذاکرات کیلئے نئی کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔ نئی کمیٹیوں میں اہم بات تحریک انصاف کے اہم رہنما اور جماعت کے حوالہ سے توڑ پھوڑ کے ماہر جہانگیر ترین کا اس میں شامل نہ ہونا ہے۔

اب تک کے مشاورتی عمل میں خود وزیراعظم عمران خان شامل نہیں ہوئے اور واقفان حال کہتے نظر آ رہے ہیں کہ فی الحال اتحادیوں کی حکومت سے اپنے معاملات اور مطالبات کے حوالے سے شکایات ہیں اور وہ حکومت سے اس پر عملدرآمد کیلئے کہہ رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو اتحادیوں سے معاملات خطرناک صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں اور اس حوالہ سے پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویزالٰہی کا یہ فقرہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ حکومت نے کمیٹی بنائی ہے اور ہم نے ڈالی ہے جو ابھی نہیں نکلی۔ وہ کمیٹی کیا ہے اس پر سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں لہٰذا دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود حکومت کے اپنی اتحادیوں سے معاملات نتیجہ خیز نہیں ہو سکے۔

حکومت خصوصاً وزیراعظم عمران خان اتحادی سیاست کی سائنس سے واقفیت نہیں رکھتے اور اس حوالہ سے اب تک سامنے آنے والا طرزعمل حکومت کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسری جانب حکومت کے ڈلیور نہ کرنے اور خراب کارکردگی کے باعث عوامی سطح پر ہونیوالے ردعمل نے اتحادیوں کو ڈرا دیا اور انہوں نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیئے۔ پنجاب جیسے اہم صوبہ میں گو کہ مسلم لیگ ق کی پارلیمانی پارٹی صرف دس اراکین پر محدود ہے لیکن حکومت سازی کے عمل میں چودھری صاحبان کی حمایت نے انہیں اس مرحلہ پر زیادہ تقویت دی اور ‘‘دشمن کے دشمن بھی دوست ہوتے ہیں’’ کا فارمولا لاگو کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب میں سپیکر کا عہدہ دیا گیا۔

ق لیگ کے ساتھ مرکز میں دو اور پنجاب کی سطح پر دو وزارتیں طے پائیں لیکن وفاقی حکومت نے وقت گزرنے کے بعد اس معاہدے پر توجہ نہ دی اور وفاقی کابینہ میں طارق بشیر چیمہ کے ساتھ دوسری وزارت پر احتراز برتنا شروع کیا جس کیلئے ق لیگ نے چودھری مونس الٰہی کو نامزد کر رکھا تھا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ وفاقی حکومت چودھری مونس الٰہی کے حوالے سے تحفظات رکھتی تھی اور خود چودھری مونس الٰہی نے بھی ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر وزیراعظم عمران خان کو میں پسند نہیں تو پھر مجھے ان کی وزارت نہیں لینی چاہئے۔ پھر یہ خبر بھی آئی کہ حکومت نے چودھری مونس الٰہی کی جگہ چودھری سالک حسین کو شامل کرنے کا عندیہ دیا مگر چودھری صاحبان نے اس پیشکش کو قبول کرنے کے بجائے اس پر شدید غصے کا اظہار کیا اور ان کا کہنا تھا یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ وزیر کس کو بنانا ہے یہ اختیار ہم کسی اور کو نہیں دے سکتے۔

اب ق لیگ سے دوبارہ مذاکرات کیلئے کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں گورنر چودھری سرور، وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور شفقت محمود کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کمیٹی پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ گورنر سرور تو ایک ہفتہ پہلے یہ کہہ کر اپنی بے اختیاری کا رونا رو چکے ہیں کہ بیورو کریسی گورنر ہاؤس کے فون کو اہمیت نہیں دیتی اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا ‘‘زوردار اور موثر کردار’’ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جبکہ شفقت محمود ایسے مذاکرات کی شہرت نہیں رکھتے۔ لگتا یوں ہے کہ چودھری صاحبان اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان فاصلے کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چودھری صاحبان حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔

جہاں تک ایم کیو ایم کے معاملات کا تعلق ہے تو وہاں بھی نئی کمیٹی میں گورنر عمران اسماعیل اور وفاقی وزیر اسد عمر کے ساتھ شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ کو شامل کیا گیا ہے۔ پچھلی کمیٹی میں جہانگیر ترین اس کا حصہ تھے لیکن اب اس میں شامل نہیں۔ ایم کیو ایم بھی دوسری وزارت کی طلبگار ہے۔ ان کی مطلوبہ وزارتیں اوورسیز پاکستانیز اور شپنگ کارپوریشن ہیں اور لگتا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ بھی وقت گزاری میں مصروف ہے اور یہاں بھی نئی کمیٹی زیادہ ڈلیور نہیں کر پائے گی۔ بلوچستان میں ‘‘تین جماعتی اتحاد’’ بھی حکومت کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے اور جیسے مطالبات پیش کئے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق حکومت سے نہیں لہٰذا نئی بننے والی کمیٹی اس محاذ پر کتنی نتیجہ خیز ہوگی اس حوالہ سے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

دوسری جانب اگر سیاسی محاذ پر نظر دوڑائی جائے تو مارچ کے حوالہ سے چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ اپوزیشن ان ہاؤس کے آپشن کا استعمال کر سکتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں تو ضرورت تھی کہ اتحادیوں کو ان کے مطالبات مان کر ساتھ لگایا اور ملایا جاتا لیکن حکومت کی غیر سنجیدگی سے تو یہ لگتا ہے کہ حکومت کو اپنے اوپر بہت زیادہ اعتماد ہے کہ اتحادی ادھر ادھر نہیں ہو سکتے اور دوسرا یہ کہ وزیراعظم عمران خان اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ جنہوں نے اتحادیوں کو ساتھ ملایا ہے ان سے ابھی راہ و رسم رکھی جائے تو کوئی خطرہ نہیں لیکن حکومتی اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جن پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو مان ہے، ان کی بھی بہت سی ترجیحات ہیں وہ حکومت بنانے میں تو معاون ہیں لیکن حکومت چلانا حکومتی ذمہ داران کا کام ہوتا ہے اور اب تک کی حکومتی کارکردگی پر اگر خود اتحادی اور حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی بھی تحفظات ظاہر کرتے نظر آتے ہیں تو یقیناً اس کی تپش سے وہ بھی متاثر ہوں گے لہٰذا سب کے اپنے اپنے مفادات اور ترجیحات ہوتی ہیں۔

اتحادیوں کو ساتھ ملانا آسان لیکن ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا ہے اور جو اس فن میں ماہر ہوتے ہیں وہ اتحادیوں کو اپنی طاقت بناتے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ بڑے گھر کو راضی رکھ کر سب کو راضی رکھا جا سکتا ہے لیکن ایسا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ اتحادی سیاست کے حوالہ سے نابلد اور غیر سنجیدہ ہے لہٰذا اتحادیوں کی ناراضگی اگر دور نہیں ہو پاتی تو یہ حکومت کیلئے خطرناک بن سکتی ہے لہٰذا سپیکر چودھری پرویزالٰہی کے اس مشورہ کو حکومت کیلئے صائب سمجھنا چاہئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے ، ہم سے کیے وعدے پورے ہونے چاہئیں۔ اتحادیوں کو سوتن نہیں سمجھنا چاہئے ۔ جہاں تک ان کا یہ کہنا ہے کہ ایک کمیٹی بنتی ہے دوسری ڈالی جاتی ہے ۔ ہم نے بھی کمیٹی ڈالی ہے یہ کمیٹی کب نکلے گی یہ آنے والا وقت ہی ظاہر کرے گا اور اس بارے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ کہہ نہ سکے کچھ کہہ بھی گئے اور کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے۔