راولپنڈی: (دنیا نیوز) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے رابطہ کیا جس میں مشرق وسطیٰ میں حالیہ اقدام سے پیدا ہونے والے تناؤ اور اس کے مضمرات پر گفتگو کی گئی۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان امن عمل کی کامیابی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
COAS emphasised need for maximum restraint and constructive engagement by all concerned to de-escalate the situation in broader interest of peace and stability. COAS also reiterated the need for maintaining focus on success of Afghan Peace Process.(2of2).
— DG ISPR (@OfficialDGISPR) January 3, 2020
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اہم بیان میں مائیک پومپیو نے لکھا کہ میں نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ سے رابطہ کیا اور انھیں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے معاملے میں اٹھائے گئے امریکی دفاعی اقدام سے متعلق آگاہ کیا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ہم خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ایران خطے میں صورتحال کو کشیدہ کر رہا ہے۔ ہم امریکی مفادات، اہلکاروں، تنصیبات اور شراکت داروں کا تحفظ کریں گے۔
اس سے قبل اپنی اپنی مختلف ٹویٹس میں مائیک پومپیو نے کہا کہ ایران، عراق سمیت پورے خطے میں پراکسی وار میں ملوث ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی پراکسی وار کے مرکزی کردار تھے، ہم نے ایران کو بتا دیا کہ مزید امریکیوں کا قتل برداشت نہیں کریں گے۔
#Pakistan s Chief of Staff General Bajwa and I spoke today about U.S. defensive action to kill Qassem Soleimani. The #Iran regime’s actions in the region are destabilizing and our resolve in protecting American interests, personnel, facilities, and partners will not waver.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) January 3, 2020
یاد رہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے علاقائی امن واستحکام کو سنگین خطرہ ہے۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اہم بیان میں کہا گیا ہے کہ خود مختاری اور سالمیت کا احترام اقوام متحدہ چارٹر کے بنیادی اصول ہیں۔ یکطرفہ اقدامات اور طاقت کے استعمال سے گریز بہت اہم ہے۔
پاکستان نے تمام فریقین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لئے تعمیری رابطے اور سفارتی چینل استعمال کریں۔ فریقین اقوام متحدہ چارٹر اور عالمی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملہ حل کریں۔