آرمی چیف کی مدت ملازمت پر اتفاق رائے ، اہم سیاسی پیشرفت

Last Updated On 03 January,2020 09:24 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت ملازمت کی تکمیل پر ان کیلئے تین سالہ توسیع کیلئے ترمیمی بل پر اتفاق رائے کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ملک کی سیاسی قوتیں اس امر پر سیاست نہیں بلکہ ملکی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھی ہیں اور اس امر کا قوی امکان ہے کہ یہ بل قومی اسمبلی سے اتفاق رائے سے پاس ہوگا اور اس عمل سے جہاں مسلح افواج کے سربراہ کی توسیع کے حوالے سے مسئلہ طے ہوگا وہاں مستقل بنیادوں پر ترمیمی بل کے ذریعے اس کی قانونی حیثیت قائم ہو سکے گی۔

مجوزہ بل میں نہ صرف چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری و توسیع کا مسئلہ حل کر دیا گیا ہے بلکہ اس شق میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین کی تقرری کا طریقہ کار بھی طے پا گیا ہے۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ میں موجودہ سیاسی قوتوں میں کن بنیادوں پر آرمی ایکٹ میں ترامیم کا مسئلہ طے پایا۔ اس اتفاق رائے کو ملک کو در پیش اہم معاملات خصوصاً نیب کے قانون میں تبدیلی کیلئے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس اہم ترین قانون سازی کے حوالے سے کچھ توقعات اور خدشات پہلے سے ذہنوں میں براجمان تھے مگر کل جب اچانک حکومتی مذاکراتی وفد اس قانون سازی پر حمایت کیلئے ن لیگی صفوں کی جانب گیا تو سیاسی تجزیہ نگار حیرت میں ڈوب گئے مگر اس سے کہیں حیرت ناک فیصلہ وہ بن گیا جس میں ن لیگ کی اعلیٰ ترین قیادت نے قومی مفاد میں محاذ آرائی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیر مشروط حمایت کا عندیہ دیا۔

اس کے بعد ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے تقریباً اس حمایت کو طے کر دیا تو بہر حال ایک بڑے طبقے کیلئے یہ پیشرفت چکرا کر رکھ دینے کیلئے کافی تھی کیونکہ ن لیگ سے حمایت کی توقع تو تھی مگر خیال یہی تھا کہ کچھ لے اور دے ضرور ہوگی اور اس کے نتیجے میں یک طرفہ قانون سازی کے بجائے کوئی با مقصد قانون سازی ہوگی۔ اس معاملے میں پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو بازی لے گئے۔ گو کہ انہوں نے قانون سازی کی حمایت سے انکار تو نہیں کیا مگر جمہوری عمل اور قانون سازی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تمام جماعتوں سے رابطوں کی بات کی۔ بلاول نے بھی اپنا نقطہ نظر سامنے لا کر حمایت کی مگر اس معاملے میں بلاول نے سیاسی پختگی کا پتا دیا۔

اس نئی پیشرفت سے ایک اور مغالطے کا بھی خاتمہ ہوا اور وہ ہے شہباز شریف کا بیانیہ، جو آج نواز شریف کے بیانیے پر حاوی ثابت ہوا ہے، اب واضح ہو چکا ہے کہ ن لیگ اپنے مزاحمتی لائحہ عمل کو چھوڑ کر اقتدار کی سیاست کو اپنا مطمع نظر بنا کر میدان میں واپس آئی ہے۔ ن لیگ بنیادی طور پر ایک ایسی جماعت تھی جو اقتدار کے ایوانوں میں خوش رہتی تھی اور کوشاں بھی مگر نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد کچھ وقت کیلئے وہ اقتدار کے بجائے اقدار کی سیاست اور عوامی بالادستی کی علمبردار بن گئی تھی۔ اس فیصلے سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ن لیگ بھی راہ راست پر آ چکی ہے اور پیپلز پارٹی بھی اسی گھاٹ کا پانی بھرنا چاہتی ہے۔ بہر حال اس اقدام اور حمایت سے نظام کو مزید وقت ضرور ملا ہے۔ سیاستدانوں پر پھر بھی بھاری ذمہ داری ہے کہ تھوڑی بہت مہلت اور گنجائش جو ملی ہے تو کچھ خیال عوام کا بھی رکھ لیا جائے تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔