لاہور: (یاسین ملک ) وزیر اعظم عمران خان کے بعد وزیر خارجہ کی جانب سے بھی کوالالمپور سمٹ ملائشیا میں شرکت منسوخ کرنے سے حکومت کی اندرون اور بیرون ملک بدنامی ہوئی جبکہ دفتر خارجہ کو اعتماد میں نہ لینے سے معاملہ مس ہینڈل ہوا اور بحران پیدا ہو گیا۔ ان خیالات کا اظہار امور خارجہ کے مختلف ماہرین نے 'روزنامہ دنیا' سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کہا کہ حکومت نے کنفیوژن پیدا کی اگر سفارتکاری کے اصولوں پر باقاعدہ عمل کیا جاتا اس قسم کا بحران پیدا نہیں ہو سکتا تھا، یہ بدقسمتی ہے کہ ملک کے اندر بھی گورنس اور قانونی مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی اس قسم کے بحران پیدا ہو رہے ہیں جو نہیں پیدا ہونے چاہیے تھے، اگر دفتر خارجہ پر اعتبار کیا جائے اور اس سے صحیح طریقے سے کام لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان مسائل سے بچا نہ جا سکے۔ لگتا یہ ہے کہ دفتر خارجہ کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جو دینی چاہئے، دفتر خارجہ میں بیٹھے پروفشنلز نے ضروری مشورے دئیے ہوں گے کہ ایسا کیا جائے جو نہیں کیا گیا ورنہ ان مسائل کا سامنانہ کرنا پڑتا۔
امریکا میں متعین پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین نے کہا کہ وزیر اعظم کے بعد وزیر خارجہ کی طرف سے کوالالمپور کا دورہ سعودی عرب کے دباؤ کے باعث منسوخ کیا گیا ہے کیونکہ اس میں قطر اور ترکی نے سعودی عرب کے خلاف کارروائی کرنی تھی، کانفرنس میں پاکستان کی شرکت نہ کرنے سے اندرون ملک، دنیا اور خصوصاً مسلمان ملکوں میں تاثر اچھا نہیں جائے گا۔ تاہم سعودی عرب ہمارے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے اس لئے ہم سعودی عرب کی وجہ سے کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہے، سعودی عرب کو اس حوالے سے قائل نہیں کیا سکتا کیونکہ سعودی اس معاملے میں ہٹ دھرم ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے کہنے پر قائل نہیں ہونا تھا۔
سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ سعودی عرب کو اس حوالے سے قائل کرنے کوشش کرنی چاہئے تھی، وزیر اعظم نہیں تو کم از کم وزیر خارجہ کو ملائشیا ضرور جانا چا ہیے تھا۔