حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے پیپلز پارٹی سوچ بچار پر مجبور

Last Updated On 19 September,2019 08:58 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) احتساب بیورو کے ہاتھوں آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کی گرفتاری نے پیپلز پارٹی کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے اور پارٹی کے ذمہ داران یہ سمجھنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پر بھی ہاتھ پڑ سکتا ہے، لہٰذا مذکورہ گرفتاری کے بعد حکومت کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے لئے کسی سافٹ کارنر یا ڈیل ، ڈھیل کے امکانات ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔

پیپلز پارٹی نئے حالات میں حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے سوچ بچار پر مجبور ہے۔ لہٰذا جائزہ یہ لینا پڑے گا کہ آج ملک میں کشمیر کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال میں جہاں اس امر کی ضرورت تھی کہ ملک میں قومی اتفاق رائے ہو اور اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم ہو، ایسی صورتحال میں خورشید شاہ کی گرفتاری ! اس کے مقاصد کیا ہیں؟ اس کے پیپلز پارٹی اور ملکی سیاست پر اثرات کیا ہوں گے ؟ کونسی ایسی وجوہات ہیں کہ وزیراعظم عمران خان تسلسل سے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اپوزیشن کیلئے این آر او کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور وہ کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔

جہاں تک خورشید شاہ کی گرفتاری اور اس کے اثرات کا تعلق ہے تو اس کی ٹائمنگ اہم ہے۔ کیونکہ احتسابی عمل اور حکومت کے حوالے سے یہ تاثر نمایاں ہو رہا تھا کہ شاید احتسابی عمل کا شکنجہ کمزور پڑ رہا ہے اور حکومت کے لئے مسائل بڑھنا شروع ہیں۔ ڈیل اور ڈھیل کی منطق نے بھی ایک نئی صورتحال طاری کر رکھی تھی لہٰذا اس بڑی گرفتاری سے اس تاثر کو توڑا گیا ہے۔ اس کے لا محالہ اثرات سندھ کی اندرونی سیاست پر بھی پڑیں گے۔ سندھ میں پہلے ہی وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے گرد احتساب کا پھندا تیار ہے، سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی بھی احتساب کے شکنجے میں جان پھنسائے بیٹھے ہیں۔ مبینہ طور پر دیگر اراکین سندھ اسمبلی وفاداری بدلنے کے جال میں پھنسے بیٹھے ہیں۔ اس بڑی گرفتاری کو پیپلز پارٹی کے اندر وفاق اور خصوصاً سندھ اسمبلی میں توڑ پھوڑ کیلئے استعمال کیا سکے گا۔ اس سے شاید سیاسی مقاصد تو پورے ہو جائینگے مگر اس وقت درکار قومی یکجہتی کا عمل سبوتاژ ہو گا۔ لہذا خورشید شاہ کی گرفتاری کے اثرات وفاق کی سطح پر بھی ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمن بھی مذہبی کارڈ پر حکومت کا پانسہ پلٹنا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی سیاست اس سمت کے خلاف ہے۔ مگر حکومت ہٹاؤ کے نقطے پر وہ فضل الرحمن اور مریم نواز کے بیانیے کے ساتھ ہم آواز ہیں۔ خورشید شاہ ہی پیپلز پارٹی کے اندر ایسی آواز ہیں جو ہمیشہ مذکورہ اور پارلیمنٹ کے عمل اور تسلسل کی بات کرتے تھے۔ اس وقت ان کی گرفتاری کا مقصد جو بھی ہو مگر بلاول ایک بار ضرور سوچیں گے کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملایا جائے۔ اور اگر تحریک کامیاب ہو جائے تو پھر تبدیلی کے اصل وارث پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے ہی ہونگے۔ حکومت کو بھی اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ کون ہے جو اسے ٹکراؤ کی جانب لے جا رہا ہے۔ حکومت کو اس وقت ٹھہراؤ چاہئے مگر حکومت اپنی کشتی خود بھنور کی جانب لے جا رہی ہے۔ حکومت احتساب پر یکطرفہ اقدامات کو بلا امتیاز سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔

احتساب پر وزیراعظم کے رویئے نے کنفیوژن کی کیفیت پھیلا دی ہے۔ ایک جانب اداروں کی آزادی کا نعرہ ہے ۔ دوسری جانب کہتے ہیں یہ ماضی کے مقدمات ہیں۔ ہمارا اس سے کیا تعلق ؟ تیسری سانس میں کہتے ہیں کہ تمام چوروں کو پکڑیں گے، چھوڑیں گے نہیں۔ اسی سانس میں یہ بھی کہتے ہیں اپوزیشن بلیک میل کر رہی ہے مگر این آر او نہیں دونگا۔ یہ ہے وہ بیانیہ جو وزیراعظم اس وقت اپنائے ہوئے ہیں۔ ان کی حکومت کا جہاز اڑنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ صورتحال وزیراعظم کو دعوت دے رہی ہے کہ وہ اپنے اندازِ سیاست پر دوبارہ غور کریں اور عوام کو در پیش مسائل سے نکالنے کے راستے پر عمل پیرا ہوں۔