لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے بعض اراکین اسمبلی کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات اور اپنی قیادت پر عدم اعتماد اور حکومت کی حمایت کی خبروں نے ایک نئی صورتحال طاری کر دی ہے۔ وابستگیاں تبدیل کرنے والے کتنے ہیں ؟ کون ہیں ؟ اور کتنے ارکان جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ؟ قطع نظر اس صورتحال کے اصل سوال یہ ہے کہ مرکز اور پنجاب میں بجٹ پاس ہونے کے بعد آخر اس بات کی ضرورت تھی کہ فلور کراسنگ کے قانون کے باوجود کسی دوسری جماعت کے اراکین کو حکومت کی حمایت کیلئے تیار کیا جاتا۔ کیا اس سے حکومت کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہوگی ؟ کیا عوام کے اندر اس عمل سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا یا حکومتی معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں عوام میں پیدا شدہ رد عمل میں کمی آئے گی ؟ یا یہ کہ اس عمل کے مقاصد کچھ اور ہیں ؟۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی اور منتخب حکومتوں کے دور میں فارورڈ بلاک کیلئے، ایک دوسرے کے اراکین اسمبلی کو توڑنے کیلئے چھانگا مانگا اور سوات کے آپریشن ہوئے جن کے ذریعے اراکین اسمبلی کو ساتھ ملانے کیلئے ممکنہ رشوت اور دیگر سہولتوں کا بندوبست کیا گیا۔ اسی اور نوے کی دہائی اس کا ثبوت ہے ۔ لیکن بعد ازاں جب دونوں بڑی جماعتوں کو اس امر کا احساس ہوا کہ ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کا عمل سیاست اور سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے تو پھر پہلے مرحلہ پر اس کے سدباب کیلئے قانون سازی کی گئی۔ بعد ازاں باقاعدہ آئینی ترمیم کے ذریعہ اس کے آگے بند باندھا گیا لیکن پھر بھی ماضی کی حکمران جماعتوں کے دامن پر اس کے داغ موجود رہے۔
تحریک انصاف کی قیادت خصوصاً وزیراعظم عمران خان شروع سے اس سیاست کے خلاف رہے اور متعدد بار یہ کہتے نظر آئے کہ سیاست کو چوروں، لٹیروں اور خصوصاً موقع پرستوں اور ابن الوقتوں نے بدنام کیا۔ میں نوجوانوں کی طاقت کو بروئے کار لا کر اسے ختم کروں گا۔ لیکن بعد ازاں انہیں اس امر کا احساس ہوا کہ حکومت میں آنے کیلئے ان کی ضرورت ناگزیر ہے تو پھر انتخابی عمل سے قبل بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے عمل کے سامنے تحریک انصاف کے خیالات، نظریات بہہ گئے۔ بہر حال تحریک انصاف انتخابی عمل کے نتیجہ میں مسند اقتدار پر پہنچ گئی اور اب جبکہ مرکز اور پنجاب میں بجٹ پاس کروانے کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچا تو چند اراکین اسمبلی کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرا کر ایک نئی سیاسی صورتحال پیدا کرنے اور خصوصاً مسلم لیگ ن کی سیاست اور مقبولیت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے اس کیلئے ایک خاص مائنڈ سیٹ کام کر رہا تھا جنہیں حال ہی میں اسلام آباد کے ایک بڑے منصب سے نوازا گیا کیونکہ وہ ماضی میں وابستگیاں تبدیل کرانے کی مہارت رکھتے تھے لیکن یہ نہ سوچا گیا کہ کچھ اراکین اسمبلی کو ساتھ ملا کر کیا حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا یا حکومت سیاسی طور پر مضبوط ہوگی، مہنگائی، بے روزگاری کے رجحان پر قابو پایا جا سکے گا۔
ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اراکین اسمبلی کی وابستگیوں پر اثر انداز ہو کر ایک بڑا سیاسی ایشو کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ حکومت کی توجہ اپوزیشن کی جانب سے آنے والے اصل دباؤ، مہنگائی، بے روزگاری کے رجحان اور بجٹ کے نتیجہ میں اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں اٹھنے والے طوفان سے ہٹ جائے اور اپوزیشن جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ ن اپنے اراکین اسمبلی کو ساتھ رکھنے اور چھوڑ کر جانے والوں کے حلقوں میں ان کے گھیراؤ میں مصروف ہو جائے۔ مسلم لیگ ن اس حوالے سے کتنے دفاعی محاذ پر آئی ہے یہ بھی آنے والا وقت بتائے گا البتہ ق لیگ کے ایک ذمہ دار نے اراکین اسمبلی کی تبدیلیوں کے اس عمل کو خود اپنی جماعت اور اراکین اسمبلی کیلئے خطرناک قرار دیا جن کا کہنا ہے کہ اس عمل سے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک اور ان کی سیاست پر اتنا فرق نہیں پڑے گا جتنا خود ہمیں۔ زمینی حقائق کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے رجحان نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں اور انہیں کسی طرف سے بھی ریلیف ملنا ممکن نظر نہیں آتا یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ اپوزیشن نے ابھی تک مسائل زدہ، مہنگائی زدہ، عوام کی آواز بننے کیلئے اتنی سنجیدگی ظاہر نہیں کی جتنی سنجیدگی انہیں اپنی لیڈر شپ کے خلاف مقدمات اور ان کی جیلوں سے رہائی پر ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ تو حکومت پر بیانات کے ذریعے دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے مگر عملاً عوام سے یکجہتی کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان عوام کو اپنی معاشی ٹیم اور عوام دشمن پالیسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ریلیف کا بندوبست کریں۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھیں کیونکہ ابھی ان کے ووٹرز کو ان سے توقعات ہیں اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر تیسری جماعت کا تجربہ بھی ناکام رہا اور ملک عدم استحکام اور انتشار سے دو چار ہوا تو اس میں نقصان صرف حکومت کا ہی نہیں خود اپوزیشن کا بھی ہوگا۔ تحریک انصاف اور اس کی لیڈر شپ سے اچھی توقعات رکھنے والے بھی اب یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہماری حکومت نے نہ کرپشن کی ہے نہ کوئی بڑا سکینڈل سامنے آیا ہے مگر اس کی نا اہلی نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ہمیں پتا نہیں کہ کسے رہنما کرے کوئی۔ کیا عمران خان کا متبادل بھی کوئی ہے۔