اسلام آباد: (دنیا نیوز) جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ بجٹ کو عوام دشمن قرار دے کر مسترد کرتے ہیں، ججوں کے خلاف سیاسی مقدمات واپس لیے جائیں۔ چیئرمین سینیٹ کو قانونی طریقے سے ہٹایا جائے گا۔ اے پی سی میں ملک کو درپیش مسائل پر گفتگو ہوئی۔ لاپتا افراد کے بارے میں قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جو لوگ سکیورٹی فورسز کے پاس ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
اے پی سی کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن بجٹ کے خلاف احتجاج جاری رکھے گی۔ عوام کو نااہل حکومت سے نجات دلانے کی کوشش کریں گے، تمام سیاسی جماعتیں عوامی رابطہ مہم شروع کرینگی۔ عوام کے جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ آئندہ الیکشن کے دوران فوج کو پولنگ سٹیشن کے اندر تعینات کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قانون سازی کی جائے۔ میڈیا پر پابندی اور سینسرشپ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بارے کے لیے قانون سازی پر غور کیا گیا۔ 18 ویں ترمیم کسی صورت تبدیل نہیں ہونے دیں گے، تبدیلی کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔ اپوزیشن کی تمام جماعتیں مشترکہ عوامی جلسے کریں گی۔
امیر جمعیت علماء اسلام (ف) کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران احتساب کا نیا مؤثر قانون بنایا جائے، تمام افراد کا یکساں احتساب کیا جائے نہ کہ مخصوص لوگوں کا۔ سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ریفرنس واپس لیے جائیں۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ اداروں کو ملکی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ قرض کمیشن کو مسترد کرتے ہیں۔ وزیرستان میں حالیہ واقعات کے بارے میں نیا کمیشن بنایا جائے جو تمام حقائق سامنے لائے۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ان کے معالج ڈاکٹر کی ملاقات کی پابندی کی مذمت کرتے ہیں۔ رہبر کمیٹی استعفوں کی تجویز پر رائے دے گی تو عمل کریں گے۔ زرداری، نواز شریف سمیت تمام سیاسی اسیروں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے۔
اس سے قبل آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا اجلاس ہوا تو اس میں شامل تمام جماعتیں حکومت کیخلاف تحریک چلانے کی حامی تھیں لیکن چیئرمین پیپلز پارٹی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اے پی سی میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی مخالفت کے باعث حکومت کیخلاف تحریک چلانے کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک مسائل کا حل نہیں ہے، ہم جمہوری اور پارلیمانی نظام کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے آل پارٹیز کانفرنس میں اسمبلیوں سے استعفوں سے متعلق جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان کی تجویز کی بھی مخالفت کی۔
اجلاس کے دوران دونوں بڑی جماعتوں نے موقف اختیار کیا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ ملکی مسائل کا حل نہیں ہے، پارلیمنٹ سے باہر رہ کر اپنا موقف بہتر طریقے سے نہیں دے سکیں گے، پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر موثر اور مشترکہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
اے پی سی اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی، اس دن کو ملک بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہیے۔ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام میں پیشرفت نہیں ہوئی۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم یک زبان ہو کر فیصلے کریں۔ انہوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز دی۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں اس سے بدترین بجٹ نہیں دیکھا۔ ہم اسمبلی کے اندر اور باہر کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ اسفندیار ولی نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ صادق سنجرانی کو تبدیل کیا جانا چاہیے، اپوزیشن نے یہ اقدام نہ اٹھایا تو عوام اعتماد نہیں کریگی۔
اے این پی نے حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک کیلئے کمیٹی بنانے کی بھی تجویز دی۔ میاں افتخار کا کہنا تھا کہ ہم تحریک سے متعلق پلان تیار کریںگے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت ہے، حکومت گرانے سے پہلے چیئرمین سینیٹ کو ہٹایا جائے، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اپوزیشن کے ہونے چاہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اے پی سی میں ابھی مباحثہ ابتدائی سطح پر ہے، اجلاس میں مختلف رہنماؤں نے تقاریر میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، تاہم ایجنڈے کے اہم نکات پر بات چیت ہونا باقی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ اے پی سی میں کیا فیصلے ہوئے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی بات چیت جاری ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے؟ تو مریم نواز نے انشا اللہ کہتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے کچھ نہ کیا توعوام مایوس ہونگے، ہمیں حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔
بعد ازاں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان میں عوام کے نمائندہ حکمران موجود نہیں، نام نہاد حکمرانوں کا ٹولہ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے بعد مسلط ہوا، ان انتخابات کو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مسترد کر چکی ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت کا ایجنڈا ملکی مفاد کے بجائے گھناؤنی سازش کا حصہ ہے، بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ ملکی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ حکومت 11 ماہ میں کارکردگی کے اعتبار سے اپنی نااہلی پر مہر ثبت کر چکی ہے۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ اس سے قبل کہ ملک کسی سانحہ کا شکار ہو، ہمیں متفقہ بیانیہ پر متحد ہونا ہوگا۔ اے پی سی رہنماؤں نے ڈگمگاتی معیشت کو بچانے، ملکی سلامتی، سٹریٹجک اثاثے اور سی پیک جیسے منصوبوں کو دشمن قوتوں سے بچانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اعلامیے میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذہبی معاملات کے حوالے سے اپنی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگے۔
ذرائع کے مطابق اے پی سی کی اکثریتی جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے پہلے مرحلے میں قرارداد پیش کی جائے گی۔ نئے چیئرمین کے نام کے لیے کمیٹی کے قیام پر بھی اتفاق کر لیا گیا ہے۔ کمیٹی میں تمام اپوزیشن جماعتوں کے ارکان شامل ہونگے۔
اس کے علاوہ اے پی سی میں شامل جماعتوں نے 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے کی تجویز مولانا فضل الرحمان نے دی تھی۔