لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) جاتی امرا میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بجٹ کے خلاف ایوان کے اندر اور باہر عوامی دباؤ بڑھانے، مارکیٹ خصوصاً تاجروں اور منڈی پر ٹیکس بڑھانے اور ججز اور وکلاء کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے اپنے بھرپور کردار کی ادائیگی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملک و قوم کو نا اہل حکمرانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے اور ملک و قوم کے خلاف بجٹ کو پاس نہیں ہونے دیں گے۔
مذکورہ ملاقات جس میں مریم نواز کی معاونت ایاز صادق، سینیٹر پرویز رشید، رانا ثنا اﷲ خان، مریم اورنگ زیب اور بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ قمر زمان کائرہ، چودھری منظور، حسن مرتضیٰ، مرتضیٰ نواز کھوکھر موجود تھے، ملاقات کا یہ سلسلہ دو گھنٹے سے زائد جاری رہا جس میں مجوزہ اے پی سی کے انعقاد اور رابطہ عوام مہم کے خدوخال طے کئے گئے، یہ بھی طے پایا کہ رابطہ عوام مہم کو جاندار بنانے کیلئے سندھ میں بلاول بھٹو زرداری اور پنجاب میں مریم نواز بنیادی کردار ادا کریں گی اور دونوں جگہوں پر ایک دوسرے سے مکمل تعاون کیا جائے گا۔ مذکورہ ملاقات جسے اہم سیاسی حلقے ایک سیاسی پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں آنے والے حالات میں یہ کس حد تک کارگر ہوگی ؟ کیا واقعتاً دونوں جماعتیں مسائل زدہ عوام کی آواز بن کر عوام کو سڑکوں پر لا سکیں گے اور کیا دونوں جماعتوں کی جانب سے بجٹ کو مسترد کرنے کا اقدام کارگر ہوگا، حکومت کی جواباً حکمت عملی کیا ہوگی۔
جہاں تک ملاقات اور دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان مشاورت کا تعلق ہے تو اسے اس حوالے سے ضرور مثبت قرار دیا جا سکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور ملکی مسائل پر ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ ویسے بھی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو مشکل صورتحال، حالات اور مقدمات کا سامنا ہے۔ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے جانشین ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بیانات اور اعلانات سے زیادہ جدوجہد پر مائل نظر آ رہے ہیں۔ جہاں تک ان کی جانب سے بجٹ اور حکومتی پالیسیوں سے متاثرہ عوام کو سڑکوں پر لانے کا سوال ہے تو حقائق یہی ہیں کہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد جو امیدیں اور توقعات قائم تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ الٹا عوام معاشی شکنجے میں پھنس کر رہ گئے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے طوفان نے نہ صرف غریب عوام بلکہ متوسط طبقے کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور آنے والے حالات میں بھی ریلیف کی فی الحال کوئی توقع نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی حکومت اور معاشی ذمہ داران اس حوالے سے سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔ لہٰذا اس بے چینی، مایوسی کی کیفیت میں اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لا سکے گی، اس حوالے سے تو فی الحال خود ان جماعتوں کے اندر بھی کوئی بڑی تحریک نظر نہیں آ رہی۔
دونوں جماعتوں کے سنجیدہ لوگ فی الحال کھلے طور پر کچھ کہنے سے گریزاں ہیں اور دبے لفظوں میں یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہماری نئی قیادت کو فی الحال رابطہ عوام مہم اور احتجاج کیلئے ابتدائی کام کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اس بجٹ کے اثرات کیا ہوتے ہیں کیونکہ ہر آنے والے دن میں حکومت غیر مقبول ہو رہی ہے اور ان کی پالیسیوں اور اقدامات سے لوگوں کا جینا دو بھر ہو رہا ہے لہٰذا مزید وقت کا انتظار کرنا چاہئے تا کہ حکومت پوری طرح سے بے نقاب ہو سکے۔ لیکن دونوں جماعتوں کی نئی قیادت اپنی جوانی کا جذبہ دکھانے کیلئے بے چین ہے اور طے یہی پایا ہے کہ مریم نواز پنجاب میں اور بلاول بھٹو زرداری سندھ میں زور آزمائی کریں گے۔ عوام کو سڑکوں پر لانے کیلئے ان کی تحریک اور پیغام تبھی کارگر ہوگا جب وہ اپنی اپنی ساکھ عوام میں بحال کر پائیں گے اور لوگوں کو یہ اطمینان حاصل نہیں ہوگا کہ تحریک اور احتجاج کا مقصد واقعتاً عوام سے یکجہتی کا اظہار ہے نہ کہ اپنے خاندان اورخصوصاً اپنے اپنے والد کو مقدمات سے بچانا اور جیل سے باہر لانا ہے۔ کیونکہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کسی بھی احتجاج اور تحریک کا ابتدائی مرحلہ بہت مشکل ہوتا ہے اور اگر واقعتاً لوگوں کے اندر بھی ایشوز کے حوالے سے رد عمل موجود ہو تو پھر جلتی پر تیل سیاسی جماعتیں ڈال کر قیادت اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں اور عوام کے درمیان ایک خلا موجود ہے، دیکھنا یہ پڑے گا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کس طرح اس خلا کو پورا کرتے ہوئے عوام کو سڑکوں پر لاتے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں ان دونوں نوجوان لیڈروں کی رابطہ عوام مہم کے بعد ہی اب اے پی سی کا فیصلہ ہونا ہے اور بعد ازاں اے پی سی حکومت کے خلاف تحریک اور جدوجہد کیلئے اپنا ایجنڈا واضح کرے گی۔ جہاں تک رابطہ عوام مہم اور عوام میں تحریک کا سوال ہے تو اصل مقصد ارکان اسمبلی پر دباؤ ڈالنا ہے تا کہ وہ بجٹ کا حصہ بننے کے بجائے اس پر عدم اعتماد کریں۔ اپوزیشن کی اس تحریک اور دباؤ کا اتنا اثر ضرور ہوگا کہ ارکان اسمبلی سے اپوزیشن سے زیادہ حکمران رابطے بحال کریں گے۔ ان کی جائز و ناجائز مانیں گے اور بجٹ کے مرحلہ پر کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن بجٹ کی منظوری کے بعد ایک مرتبہ پھر ادھر اُدھر ہونے کا کھیل ضرور شروع ہوگا۔
بلوچستان سے اختر مینگل اپوزیشن سے راہ و رسم بڑھا چکے ہیں اور اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان بھی کر چکے ہیں لیکن یہ اعلان فی الحال وقتی نظر آ رہا ہے اور بلوچستان جیسے حساس صوبہ سے کسی بڑی بغاوت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ایسے ہی تحفظات ایم کیو ایم اور ق لیگ بھی ظاہر کر رہی ہیں مگر ان کا احتجاج اور تحفظات بھی دور ہو چکے ہیں کیونکہ بجٹ کا موقع ہی ایسا ہوتا ہے جس میں اتحادیوں کے رکے کام بھی ہو جاتے ہیں اور شکوے شکایات، معافیوں اور التجاؤں میں بہہ جاتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور ملاقاتوں سے حکومت ضرور الرٹ ہوگی اور حکومتی ذمہ داریہ بھی سونگھتے اور پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ ڈری ڈری، سہمی سہمی سی اپوزیشن میں یکدم آنے والے اعتماد کے پیچھے کوئی اور تو نہیں کیونکہ احتساب کے عمل نے اپوزیشن کو کسی حد تک متاثر ضرور کیا تھا لیکن ان جماعتوں کی نئی قیادت مصلحتوں کا شکار ہونے کے بجائے برسر پیکار ہونے پر آمادہ ہے اور یہی فی الحال خطرے کی گھنٹی ہے۔