اندرونی استحکام کے بغیر معاشی اقدامات کے ثمرات سامنے نہیں آئینگے

Last Updated On 18 February,2019 08:52 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی اپنے بیرونی دورہ کے پہلے مرحلہ میں پاکستان آمد، ان کا تاریخی استقبال اور پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اہم معاہدوں کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ پاک سعودی تعلقات ایک نئے فیز میں داخل ہو رہے ہیں۔ جن سے پاکستان کی معیشت بھی توانا ہوگی اور خود سعودی عرب کے مفادات کو بھی تقویت ملے گی لیکن اس دورہ کو جسے پاکستانی حالات میں تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے معیشت پر کیا اثرات ہوں گے ؟ خطہ کی صورتحال میں اسے کس طرح لیا جا رہا ہے ؟ دورہ کتنی اہمیت کا حامل ہوگا ؟ توقعات کیا ہوں گی ؟ امکانات کیا بنیں گے جہاں تک توقعات اور امکانات کی بات ہے تو دو طرفہ تعلقات اور ایک دوسرے کے حوالے سے بھرپور جذبات کی کیفیت ہمیشہ سے رہی ہے لیکن یہ اس دورہ پر جہاں خود سعودی ولی عہد کے اپنے علاقائی اور عالمی امیج کا سوال ہے وہاں خود پاکستان کی نئی قیادت اور خصوصاً عسکری قیادت اسے غیر معمولی اہمیت دے رہی ہے، اس کے اثرات پاکستان کی معاشی صورتحال کے حوالے سے بہتر ہوں گی۔ ہمیں درپیش اقتصادی چیلنجز کا کسی حد تک مداوا ہوگا، لیکن ایک بات جو ولی عہد کے بھرپور استقبال کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے سفارتی، سیاسی اور حکومتی حلقوں میں محسوس کی جا رہی ہے کہ چند ماہ قبل تک پاکستان کے حالات، واقعات اور معیشت کے حوالے سے سی پیک کو جو غیر معمولی اہمیت ملی تھی وہ اب ابوظہبی اور سعودی عرب کے ولی عہد کے دورہ پاکستان اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اقدامات کے بعد کسی حد تک بیلنس ہوئی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین جو علاقائی محاذ پر اپنے معاشی مفادات کے تحت غیر معمولی حیثیت و اہمیت حاصل کر چکا تھا اسے ایک خاموش پیغام ضرور گیا ہے۔ جسے علاقائی صورتحال اور خطہ کے حالات کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

سعودی ولی عہد نے اپنے اس بیرونی دورے کو پاکستان سے شروع کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ بیرونی محاذ پر پاکستان اس کی ترجیح ہے، یقیناً وہ بھارت، چین اور ملائیشیا میں جا کر وہاں بھی اپنے دو طرفہ تعلقات اور اقدامات کا اعلان کریں گے لیکن پاکستان کیلئے آج کے حالات میں یہ دورہ اس لیے اہم ہے کہ پاکستان اس وقت بدترین معاشی بحران سے دو چار ہے اور ایسی کیفیت میں پاکستان کے اندر سعودی سرمایہ کاری اور معاہدوں کا عمل مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کیلئے بھی ترغیب اور تحریک کا باعث بنے گا۔ اس امر میں شک نہیں کہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر بیرونی قرضوں کو خود کشی قرار دینے والے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سارا عمل کرنا پڑا لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ آج جب چین کے ساتھ سی پیک اور سعودی عرب، ابوظہبی کی سرمایہ کاری اور معاہدے اور دیگر ممالک کی جانب سے پاکستان کی جانب سے راغب ہونے کا عمل جاری ہے تو اصل ضرورت پاکستان کے اندر سیاسی استحکام قائم کرنے کی ہے۔ یہاں سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول ناگزیر ہے۔ گورننس کے خواب کو حقیقت بنائے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ یقیناً موثر احتسابی عمل ایک قومی ضرورت ہے اور پاکستان کے اہم طبقات اور عوام غیر جانبدارانہ اور مؤثر احتساب چاہتے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو اپنی پالیسیوں اور طرز عمل کے حوالے سے ذمہ دار بننا ہوگا کیونکہ احتسابی عمل اور خود حکومتی ذمہ داران کے بیانات کے باعث خوف و ہراس کی فضاطاری ہونے سے اتنا پیسہ ملک میں قرضوں کی صورت میں آیا نہیں جتنا باہر جا چکا ہے۔

پاکستان میں معیشت کی بحالی اور اسے ترقی دینے کے عمل کیلئے وزیراعظم عمران خان کو اپنے رفقاکار کے ساتھ سر جوڑنا پڑے گا۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی پالیسی ترک کر کے مؤ ثر احتسابی عمل کیلئے قوانین میں ترامیم لانا ہوں گی اور اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ خود حکومت اور وزیراعظم انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں۔ لوگوں نے انہیں احتساب کا مینڈیٹ ضرور دیا۔ لیکن اس کے ساتھ عوام ریلیف چاہتے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ نہ تو ابھی تک خود وزیراعظم عمران خان کے مطلب کا احتساب شروع ہو سکا اور نہ ہی عوام کو کوئی ریلیف مل سکا بلکہ یہ کہا جائے تو کوئی جھوٹ نہ ہوگا کہ ان کی حکومت بننے کے بعد سے اب تک مسائل زدہ، مہنگائی زدہ عوام کی تکالیف بڑھتی ہیں اور ان کا حکومتی ذمہ داران کی جانب سے بار بار یہ کہنا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ / فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ جب تک عوام کی زندگیوں میں اطمینان نہیں آئے گا تو اسٹیبلشمنٹ زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہے گی جہاں تک فوج کے کردار کا تعلق ہے تو فوج ہمیشہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے کسی جماعت کے ساتھ نہیں اور اگر حکومت سیاسی اور عوامی محاذ پر ڈلیور نہ کر پائے اور حکومتی پالیسیوں کے باعث عوام الناس کی زندگیوں میں اطمینان کے بجائے ان کیلئے وبال جان بن جائیں تو پھر فوج ہمیشہ پاکستان اور پاکستان کے مفادات کو دیکھتی ہے نہ کہ غیر معقول حکومتوں کو سہارا دے کر عوام کے جذبات پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ پاکستان کی فوج قومی فوج ہے اور وہ اپنا وزن پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ ڈالتی ہے۔