لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ ) سی ٹی ڈی کی بربریت کے حوالے سے جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ آگئی ہے، پنجاب حکومت نے ابتدائی رپورٹ پر ایکشن لیا ہے اور اس کا اعلان صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے کیا، عوام اور ماہرین کے ذہنوں میں اس سانحہ کے حوالے سے جو سوالات گونج رہے ہیں، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ان کے جوابات موجود نہیں ہیں۔ ان کے جوابات اس سانحہ کے متاثرین کے ورثا اور قوم کو بھی چاہئیں۔
ہمیں یہ پتہ نہیں چل رہا کہ پولیس اور سی ٹی ڈی کی جانب سے اس واقعہ کے بعد بار بار بیانات بدلے جا رہے تھے، پورے تصور کو بدل دیا جانا تھا تو اس کا ذمہ دار کون تھا ؟ مرنے والے چار افراد کو پہلے اغوا کار اور پھر دہشت گرد کس بنیاد پر کہا گیا، پنجاب حکومت نے اس بیانیہ کو کیوں تسلیم کیا ؟ اگر مرنے والے اغوا کار تھے تو یہ کیوں نہیں پوچھا گیا کہ انہوں نے کیا اپنے ہی 3 بچوں کو اغوا کیا تھا ؟ اگر گاڑی میں سوار افراد دہشت گرد تھے تو انہوں نے کوئی مزاحمت کیوں نہیں کی ؟ ان اغوا کاروں اور دہشت گردوں کو زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی ؟ کیا 3 بچوں کو کار سے باہر نکالنے کے بعد باقی کار سواروں پر فائر نہیں کھولا گیا ؟ جیسا کہ موبائل فون فوٹیج کی وجہ سے ہمارے پاس اس کا ثبوت موجود ہے۔ ان افراد پر شک کی بنیاد پر سیدھی فائرنگ کا اختیار کس نے دیا ؟ کب دیا ؟ اور پولیس نے یہ اختیار کیسے استعمال کیا ؟ پولیس نے جوابی فائرنگ کا الزام تو لگایا لیکن کیا پولیس کا کوئی جانی یا مالی نقصان ہوا ؟ کیا اس بات کا ثبوت ملا کہ پولیس پر کوئی فائر کیا گیا ہے ؟۔
ٹی وی فوٹیج میں پولیس کو یکطرفہ فائرنگ کرتے دکھایا گیا ہے، کیوں اس بیانیہ کی اجازت دی گئی کہ پولیس پر فائرنگ کی گئی تھی ؟ پولیس مرنے والوں کی لاشیں اور بچوں کو چھوڑ کر کیوں فرار ہو گئی تھی ؟ گاڑی سے اسلحہ اور خود کش جیکٹس ملی تھیں تو انھیں منظر عام پر کیوں نہیں لایا گیا ؟ اگر یہ جھوٹ بولا گیا تو اس کا اختیار کس سطح پر دیا گیا تھا ؟ گاڑی میں خودکش جیکٹ تھی تو فائرنگ کے باوجود کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ اس کی کیا وجہ تھی ؟ گاڑی میں بارودی مواد تھا تو سی ٹی ڈی نے بم ڈسپوزل سکواڈ کو کیوں نہیں بلایا ؟ واقعہ کے بعد فرانزک ٹیم نے جائے وقوعہ سے شواہد کیوں اکٹھے نہیں کئے ؟ اس آپریشن کا کرائم سین کیوں محفوظ نہیں کیا گیا ؟ کیا کسی ریڈ بک میں خلیل اس کی بیٹی اور بیوی اور ذیشان کے نام بطور دہشت گردیا بطور مشتبہ کہیں درج تھے ؟ کیا ذیشان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہوئی ہے ؟ ذیشان سے شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس ملا۔ کیا دہشت گرد شناخت لے کر گھومتے ہیں ؟ ایف آئی آر میں 16 اہلکار نامزد ہیں۔ اب تک 6 اہلکاروں کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے ؟ کیا اس میں پولیس کے علاوہ کسی اور ادارے کا بھی ہاتھ تھا ؟ یہ بھی جاننا ضروری کہ یہ معاملہ کس رخ پر آگے بڑھے گا، حکومت پنجاب اس کی کس حد تک ذمہ دار ہے ؟۔
اس حوالے سے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہت اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں، سانحہ ساہیوال پر سوالات کے جواب جے آئی ٹی اور حکومت دے گی، کیونکہ اب لوگ آگاہی رکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اداروں میں جو لوگ جرم کرتے ہیں، ان کو کس طریقے سے بچایا جاتا ہے، میں حکومت، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ حکومت مذکورہ تمام سوالات کے جواب دے گی۔ میں کل مقتول کے خاندان کو ملنے کے لئے گیا تھا۔ میری خلیل کے خاندان اور ان کے والد اور بھائیوں سے ملاقات ہوئی ہے، ان کے بچوں سے ملاقات ہوئی ہے، خلیل کے خاندان نے جو غم دیکھا وہ مہذب معاشرے میں برداشت کرنا ممکن نہیں، وزیراعظم نے متاثرہ خاندان کوانصاف کی یقین دہانی کرائی ہے، سانحہ ساہیوال کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ساہیوال سے متعلق میرا بیان سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، میں نے یہ کہا تھا کہ دنیا بھر میں ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن ان میں میں ملوث افراد کو سزا ملتی ہے اور اس کے بعد آئندہ ایسا ظلم نہ ہو اس کی سفارشات پیش کی جاتی ہیں، افسوس کہ کچھ لوگوں نے میرے بیان کا غلط تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ساہیوال مختلف مقدمات ہیں، دونوں واقعات میں ظلم ہوا ہے لیکن حالات مختلف ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک سیاسی فیصلہ تھا، پاکستان کی تاریخ میں کسی حکومت نے جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقات پر ایسے فیصلے نہیں کیے، مجھے کوئی ایک مثال دے دیں، جو فلسفہ ہم نے دیا تھا،ہم اسی پر عمل کر رہے ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں کسی حکومتی شخصیت کا نام آیا تو کارروائی ہوگی، یہ ابتدائی تفتیش ہے، مکمل رپورٹ آنے دیں، آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں پاکستان کے 20 کروڑ عوام ان کا حکومت اور اداروں سے جواب مانگ رہے ہیں، پاکستان میں حقائق سامنے آنے سے پہلے ردعمل کی روایت پڑگئی، گورنر پنجاب، جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی سوالوں کے جواب آئیں گے اور حکومت بھی دے گی۔ اس بار ہم نے ظلم کے خلاف ایک مثال قائم کرنی ہے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے، اب نیا پاکستان۔ دو پاکستان نہیں ایک ہے ، غریب اور طاقتور سب سے برابری کا سلوک ہوگا۔ سانحہ کے بعد وزرا کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایسے واقعات پر تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ادارے اور سیاستدان رد عمل نہیں دیتے اور معاملہ حتمی مرحلے تک پہنچنے سے پہلے میڈیا بھی خاموش رہتا ہے۔ پاکستان میں تیز رفتار ایکشن کا ایک کلچر بنا ہوا ہے جب اس میں قیاس آرائیاں ہوتی ہیں اور جب میڈیا سوالات کرتا ہے تو سیاستدان اس کا جواب دینے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں ابھی ابتدائی رپورٹ ہے ہم نے اس پر سخت ترین ایکشن لیا ہے ۔جب مکمل رپورٹ آئے گی ہم عوام کو سب سوالوں کے جوابات دیں گے۔