لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) جنوبی پنجاب صوبہ جیسے سنجیدہ ایشو اور اس حوالے سے حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی کمٹمنٹ کے باوجود اسے محض سیاست کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ کبھی حکومت اس پر پیش رفت کیلئے اپنی اکثریت کا بہانہ تراشتی نظر آتی ہے تو کبھی اپوزیشن اس حوالے سے بیان بازی کے ذریعے حکومت کو دفاعی محاذ پر لا کھڑا کرتی ہے، پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف نے گزشتہ روز میڈیا کے ذریعے حکومت کو جنوبی پنجاب صوبہ پر سنجیدگی اختیار نہ کرنے کا طعنہ دیتے ہوئے اعلان کیا کہ حکومت اس پر پیش رفت کرے۔ ہم اس سے تعاون کیلئے تیار ہیں۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت اور اپوزیشن دونوں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے پر یقین رکھتے ہیں تو اس پر رکاوٹ کیا ہے ؟۔
کیا جنوبی پنجاب میں ایک نئے سیکرٹریٹ اور ایک نئے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے صوبہ کے مقاصد پورے ہو پائیں گے ۔ جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے پیش رفت کیسے ممکن بن پائے گی؟ حکومت کے اندر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے علمبردار نئے صوبہ کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں اور کیا واقعتاً حکومت کی جانب سے کسی پیش رفت کی صورت میں مسلم لیگ ن حکومت سے تعاون کرے گی۔ اب اگر اپوزیشن وفاق اور صوبہ دونوں جگہ نئے صوبے خصوصاً جنوبی پنجاب کے نعرے کو اپنی حمایت دینے کو تیار ہے تو پھر اب کوئی رکاوٹ اور وجہ باقی نہیں رہنی چاہئے ۔ لہٰذا اب صوبائی حکومت اور اس کے روحِ رواں وفاق میں بیٹھے وزیراعظم عمران خان پر لازم ہو چکا ہے کہ وہ نئے صوبے کے قیام کیلئے صوبائی ایوان کے اندر اپنا ہوم ورک مکمل کریں اور قانون سازی کیلئے اپنی ٹیم کو سرگرم بھی کریں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی تا کہ نئے صوبے کیلئے مجوزہ قانون سازی کی ضد صوبائی ایوان کو دکھائی جا سکے۔
لازمی بات ہے کہ اپوزیشن اس قانون سازی کی تحریک اور لہجے کو اپنے مفادات، مد نظر رکھ کر ہی ووٹ اور حمایت دے گی مگر بظاہر اپوزیشن اس وقت تیار ہے۔ ہو سکتا ہے اپوزیشن حکومت وقت کی بے بسی اور بے حکمتی کو بے نقاب کرنا چاہتی ہو اور جب حکومت تیار ہو جائے تو پھر آئینی حمایت سے اپنا ہاتھ کھینچ لے۔ بہر حال اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ مگر عوامی اور سیاسی حلقوں میں اصل پریشانی خصوصاً جنوبی پنجاب کے علاقوں میں یہ ہے کہ حکومت براہ راست قانون سازی کی بجائے بالواسطہ اس صوبے کے قیام سے پہلے کچھ انتظامی تقسیم کرنا چاہ رہی ہے اور خدشہ یہ ہے کہ حکومت جنوبی پنجاب کے نعرے سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہی ہے۔
قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ پہلے وزیراعلیٰ کو ڈیرہ غازیخان کے پسماندہ علاقے سے لایا گیا اور اس سے عوامی مطالبے کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی اب حکومت آئندہ بجٹ تک اور اس بجٹ کے بعد نئے مالیاتی سال میں ملتان میں نیا سول سیکرٹریٹ بنا کر صوبائی بیورو کریسی کو بتدریج تقسیم کرنا چاہتی ہے اور ساتھ ساتھ حکومتی منصوبہ صوبائی نوکریوں اور پبلک سروس کمیشن کیلئے بھی تقسیم کا ہے ۔ اس کیلئے عین ممکن ہے کہ صوبے میں بیک وقت دو صوبائی سروس کمیشن کام کریں۔ تا کہ گریڈ 17 تک کی تمام صوبائی نوکریوں میں علاقائی توازن پیدا کیا جا سکے۔
بہر حال ان اقدامات کے اپنے نتائج ہونگے اور لازمی طور پر سرائیکی علاقوں کے لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔ مگر ان اقدامات کا لازمی اثر فی الفور صوبے کی تقسیم اور جنوبی پنجاب کے قیام پر بھی ہوگا اور لازمی امر ہوگا جب یہ صوبہ پارلیمانی مدت کے آخری سال کے آخری کوارٹر میں بننے کا سفر طے کرے گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر بہت کچھ کا انحصار ملک کے سیاسی استحکام اور حکومت اپوزیشن تعلقات پر بھی ہوگا۔ اگر منصوبے کے قیام میں اتنی تاخیر ہو گئی تو پھر اصل فیصلہ طاقتور حلقوں کا ہوگا جو ایوان سے باہر رہ کر آخری لمحے پر قانون سازی کروا لیتے ہیں۔