بے رحم احتساب ریاستی فیصلہ؟

Last Updated On 29 December,2018 09:51 am

لاہور: (سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے منی لانڈرنگ کے خلاف ملکی تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے بڑے مسائل منی لانڈرنگ سے ہیں۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان سے سالانہ 10 ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔ چار ماہ بڑی مشکل سے گزارے ہیں۔ بجلی ، گیس اور پی آئی اے سمیت ہر جگہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔ چیلنجز در پیش ہیں مگر بحرانی صورت میں بد انتظامی ہے، درست کر لیں تو مسئلے حل ہو جائیں گے۔ ماضی میں اصلاحاتی عمل نہیں ہوا، آئی ایم ایف کے پاس جانے کی جلدی نہیں وہ آمدن بڑھانے، خرچ گھٹانے پر زور دیتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے آنے والے جذبات اور حکومتی اقدامات اشارہ یہی دیتے ہیں کہ حکومت آگے اور ادارے پیچھے بڑی تبدیلی کیلئے سرگرم ہیں اور اس پر کوئی کمپرومائز کرنے کیلئے تیار نہیں البتہ انہوں نے یہ کہہ کر‘‘ کل سے سندھ سے چیخیں آنا شروع ہو گئی ہیں یہ چیخیں منی لانڈرنگ کی ہیں’’ تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا منی لانڈرنگ کے دھندے میں صرف سیاستدان ملوث ہیں؟ یا خود ریاستی اداروں کے ذمہ داران اس میں مافیاز کی معاونت کرتے رہے ہیں ؟ منی لانڈرنگ کا سلسلہ کیا سندھ تک محدود تھا۔ پیپلز پارٹی اس پر پریشان کیوں ہے ؟ احتسابی عمل کو انتقامی عمل کیوں قرار دیا جا رہا ہے ؟ پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا درست ہے ؟ کیا احتسابی عمل کے جواب میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر میدان میں آئیں گی ؟ منی لانڈرنگ کے حوالے سے بننے والی جے آئی ٹی اور اس کی تفصیلات سے ثابت ہوا ہے کہ اس میں صرف سیاستدان نہیں بینکرز، سرمایہ دار ٹولہ، لینڈ مافیا اور ریاستی ادارے مل کر کام کر رہے تھے۔ قومی خزانہ لوٹا جا رہا تھا اور لوٹی رقم میں سب اپنا اپنا حصہ لے رہے تھے جس سے ثابت ہوا ہے کہ یہ کوئی فرد، گھرانہ یا جماعت نہیں یہ دراصل باقاعدہ کچھ ایسے لوگوں کا اداروں سے مل کر بننے والا ایک مجموعہ تھا جو ایک ایجنڈا کے تحت سرگرم تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ای سی ایل میں ڈالے جانے والے ناموں میں سیاستدان بھی ہیں، بیورو کریٹس بھی، حکومتی ذمہ داران بھی، لینڈ مافیا بھی۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کی جانب سے اٹھائے جانے والے واویلا کا تعلق ہے تو جے آئی ٹی کی رپورٹ حتمی نہیں اسے کورٹ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اس کی ساکھ کا سوال وہاں اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس میں کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ لہٰذا جے آئی ٹی میں اگر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ خصوصاً زرداری خاندان کو ٹارگٹ کیا گیا ہے تو عدالت میں ان الزامات کو چیلنج کیا جا سکتا ہے کیونکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ حرفِ آخر نہیں۔ جے آئی ٹی کا کام منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کی نشاندہی تھا اور انہوں نے اس حوالے سے جسے ملوث سمجھا وہ نام انہوں نے رپورٹ میں شامل کر د ئیے۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کی جانب سے احتسابی عمل کو چیلنج کرنے اور خود کو ٹارگٹ کرنے کا سوال ہے تو پیپلز پارٹی ایک جمہوری جماعت رہی ہے جو اداروں کی مضبوطی اور جمہوری روایات اور اقدار پر چلنے کا عزم ظاہر کرتی نظر آتی ہے۔ ملک کے اندر احتسابی عمل کے حوالے سے اس نے مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کے ساتھ مل کر مؤثر احتسابی عمل اور کرپٹ عناصر کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے با اختیار احتساب کمیشن کی تشکیل کی بات کی تھی اور اس کے بعد پیپلز پارٹی پانچ سال تک برسرِ اقتدار رہی مگر اس نے احتساب کمیشن کی تشکیل پر پیش رفت کو مناسب نہیں سمجھا اور یہی مسئلہ خود مسلم لیگ ن کا رہا کہ پانچ سال تک مسلم لیگ ن کا اقتدار رہا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ احتساب کمیشن کی تشکیل میں سنجیدگی ظاہر نہیں کی بلکہ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے نیب قوانین میں ترامیم کیلئے آنے والے دباؤ کا بھی نوٹس نہ لیا اور خود نیب قوانین میں جکڑے گئے اور اب براہ راست عدالتوں کو کوسنے کے بجائے بڑی سیاسی قوتیں نیب کو مورد الزام ٹھہراتی نظر آتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے ملک کے اندر مؤثر احتسابی عمل پر پیش رفت کے بجائے نیب کو اپنے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور نیب نے پلی بارگیننگ کے نام پر اپنے مقاصد بھی پورے کئے اور دونوں بڑی جماعتوں کے نامور افراد کے مقدمات بھی نمٹائے گئے اور اب پیپلز پارٹی جن مقدمات پر چیخ و پکار کر رہی ہے ابھی یہ کیسز موجودہ حکومت کے نہیں بلکہ ماضی کے ادوار کے ہیں جن پر پیش رفت موجودہ حکومت کے دور میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے ہوئی۔

منی لانڈرنگ پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی نے سندھ میں کرپشن اور لوٹ مار کا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دیا اور اسی بنا پر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سندھ سے چیخیں آنا شروع ہو گئی ہیں لیکن جناب وزیراعظم منی لانڈرنگ کا خوفناک اور بھیانک عمل صرف سندھ تک محدود نہیں بلکہ اس میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ ساری ملوث ہے ۔ اس میں ریاستی اداروں کے ذمہ داران نے بھی ہاتھ صاف کئے ہیں جن کی اولادیں جائیدادیں ملک سے باہر ہیں اور بہت سارے وہ بھی ہیں جو خود حکومت کے اہم مناصب پر موجود ہیں لہٰذا اگر کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف موثر احتسابی عمل چل پڑا ہے تو اسے مخالفین تک محدود نہ کریں بلکہ سیاسی جماعتوں سمیت حکومت اور اداروں کے اندر موجود ان سب لوگوں کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جانا چاہئے جس جس نے کرپشن اور کمیشنوں میں ہاتھ رنگے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ یہاں احتساب کے عمل کو غیر جانبدارانہ انداز میں بلاامتیاز آگے نہیں چلایا گیا جس کی وجہ سے سیاسی محاذ آرائی اور درجہ حرارت بڑھا اور پاکستان میں کرپشن’ لوٹ مار اور بے ضابطگیوں کا رجحان بڑھا۔ جہاں تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کے گرد قانون کا شکنجہ کسے جانے کے بعد ان کے درمیان مفاہمت یا اعتماد کا سوال ہے تو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر چلنا چاہتی تھی اور اس کے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور اس کے بعد سپیکر وزارت عظمیٰ اور صدارتی انتخابات تک مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے کے بجائے ایسی حکمت عملی اختیار کی جس سے ن لیگ کو نقصان پہنچا لیکن اب ظاہر ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی کی جانب سے دئیے جانے والے سگنلز کارگر ثابت نہیں ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مل کر احتسابی عمل کو چلا رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتساب حکومت نہیں ریاست کا فیصلہ ہے اور اس پر کسی کو کارگر نہیں ہونے دیا جائے گا لیکن احتسابی عمل موثر اور نتیجہ خیز وہی ہوگا جس میں قانونی شکنجہ حکومت کے اندر بیٹھے ذمہ داران ریاستی اداروں میں سرگرم کارندوں اور دیگر طبقات تک وسیع ترین ہوگا کیونکہ ملک میں تاثر یہ نمایاں ہو رہا ہے کہ شاید ٹارگٹ صرف اپوزیشن اور اپوزیشن میں بھی شریف فیملی اور زرداری خاندان ہے اور اگر یہ تاثر نمایاں رہا تو آنے والے وقت میں بڑی جماعتیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوں گی کہ احتساب جانبدارانہ ہے اور محض ایجنڈا کے تحت دو خاندانوں کا سیاسی کردار ختم کیا جا رہا ہے ۔ یہ چیز ملک کے اندر انتشار اور انارکی کا باعث بنے گی لہٰذا ذمہ داری نیب کی ہے کہ اس تاثر کو دور کرے اور احتساب کا سلسلہ تمام کرپٹ عناصر تک وسیع تر کیا جائے۔