لاہور: (دنیا نیوز) لاہور میں زیر زمین پانی کی تیزی سے گرتی ہوئی سطح میں بہتری لانے کے لیے پانی کی سپلائی 12 گھنٹوں تک محدود کردی گئی۔
تیزی سے رونما ہوتی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے ملک تیزی سے صاف پانی کی قلت کی جانب بڑھ رہا ہے اور ملک کے متعدد علاقوں میں اس کے اثرات نمایاں طور پر نظر آ رہے ہیں۔ لاہور پر بھی اِس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گرتی جارہی ہے۔ اِس سے نمٹنے کے لیے شہر میں پینے کے پانی کی سپلائی 12 گھنٹوں تک محدود کردی گئی ہے۔
دوسری طرف اِس فیصلے پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد شہریوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ شہریوں کا شکوہ ہے کہ عملا پانی کی فراہمی پر پابندی 14 گھنٹوں سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ اِس صورت حال کے باعث اُنہیں روزمرہ کے اُمور کی انجام دہی میں مشکل کا سامنا ہے۔ صورت حال کے باعث محسوس تو یہ بھی ہورہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پانی کی بندش کے دورانیے میں مزید اضافہ ہوگا۔
خیال رہے کہ آبادی بڑھنے، آلودگی اور دوسری وجوہات کی بنا پر پینے کا پانی ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔ دنیا میں کم از کم ایک ارب لوگوں کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے اور 2.7 ارب انسان ایسے ہیں جنھیں سال کے کم از کم ایک مہینے میں پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 5 کروڑ پاکستانی آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ زیر زمین پانی میں آرسینک نامی زہر اور آلودگی شامل ہونے سے خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق آئندہ 10 برس میں لاہور سے پینے کا پانی ختم ہو سکتا ہے۔ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح سالانہ ڈھائی فٹ کم ہو رہی ہے مگر 100 فٹ نیچے موجود یہ پانی آلودہ ہے اور پینے کے لیے مناسب نہیں، شہر میں پانی کی کمی کے اثرات ابھی سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ شہریوں کے مطابق انہیں ملنے والا پانی صاف اور پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ وہ اس پانی کو پینے کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پینے کے لیے نجی کمپنیوں کی جانب سے فروخت کیے جانے والے قیمتی پانی کا استعمال کرتے ہیں۔
شہر میں صاف پانی کے لیے 700 فٹ گہرائی تک بورنگ کی جارہی ہے اور ہزار فٹ سے زیادہ پر پانی موجود ہی نہیں۔ واسا کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے دریاؤں اور نہروں سے پانی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک پاکستان پانی کی شدید قلت والے 33 ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ خیال رہے کہ پاکستان میں گزشتہ چاردہائیوں کے دوران پانی کی کوئی نئی ذخیرہ گاہ تعمیر نہیں ہوئی جس کی وجہ سے نہری نظام میں پانی کی کمی کا سامنا ہے اور پانی کی وافر مقدار سمندر برد ہو رہی ہے۔
ملک میں خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح گر جانے کی وجہ سے شہریوں کو صاف پانی میسر نہیں، لاہور میں بھی صاف پانی کا بدترین بحران ہے، اگر بروقت مناسب اقدامات نہ کیے گے تو مستقبل قریب میں پانی کا بحران انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر لے گا۔