لاہور: (دنیا نیوز) بھارتی آرمی چیف کی اکڑ، پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری سمجھنے لگا، جنرل بپن راوت کی گیدڑ بھبکیاں، کہا کہ وقت آگیا پاک فوج اور دہشت گردوں سے بدلہ لیا جائے، پاکستان کو جواب دیا جائے گا۔
جنرل بپن کا بچپن، خیالی دنیا کے ڈائیلاگ بولنے لگے، بھارت کا مکروہ چہرہ بھی کھل کر سامنے آگیا۔ خطے میں امن کے لیے پاکستان نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو بھارت کو راس نہ آیا، امن کی دشمن بھارتی فوج دھمکیوں پر اتر آئی۔ مودی سرکار پہلے مذاکرات سے بھاگی اور اب بھارتی آرمی چیف کی گیدڑ بھبکیاں شروع ہوگئیں۔
بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی فوج سے بدلہ لیا جائے، ہم اپنی حکمت عملی آشکار نہیں کریں گے۔ عسکری کارروائی ہمیشہ سرپرائز ہوتی ہے، پاکستان کو اس کی زبان میں جواب دیا جائے گا۔ ہم پاکستانی فوج کی دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں، پاکستان کو درد محسوس کرانا چاہتے ہیں۔
بھارتی آرمی چیف نے مزید کہا کہ ہتھیاروں کی ضرورت ہے، خریدتے رہیں گے۔ پاکستان جو کرتا ہے کرتا رہے، جوابی اقدامات بھی ہونگے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھارتی آرمی چیف کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے امن کے لیے پہلے ہاتھ بڑھایا تھا، بھارتی آرمی چیف کا بیان انتہائی نامناسب تھا۔ بھارتی آرمی چیف کوسمجھنا چاہیے کہ وہ بھارتیا جنتا پارٹی کے سربراہ نہیں، بھارتی آرمی چیف کی سیاسی جماعت کے آلہ کار نہ بنے۔ آرمی چیف کو سیاسی آلہ کار کے طور پر بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔
بھارتی آرمی چیف کی دھمکیوں کے جواب میں میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ بھارت ہمیں کیا جواب دے گا؟ بھارت نے زبانی سرجیکل اسٹرایئک کی تھیں۔
سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ کا بھارتی چیف کے بیان پر رد عمل میں کہنا تھا کہ بھارتی آرمی چیف کی دھمکی دراصل ان کو لاحق بد ہضمی ہے، بھارت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے پاس ان کا موثر علاج ہے، بیان سے لگتا ہے کہ وہ نارمل پوزیشن میں نہیں تھے۔ بھارت کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال پر بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے بیانات کے گولے چلا رہا ہے۔
اس سے قبل مذاکرات کی منسوخی پر وزیراعظم عمران خان نے بھارتی رویے پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ بڑے عہدے پر بیٹھے چھوٹے شخص کی سوچ چھوٹی ہی رہتی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دوحا ائیرپورٹ پر امریکہ روانگی سے پہلے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا بہانے تلاش کرکے ملاقات سے فرار درست رویہ نہیں ہے۔