لاہور: (دنیا نیوز) نواز شریف کے چالیس سالہ سیاسی سفر میں ایک اور موڑ، دس سال قید بامشقت سنا دی گئی، مسندِ اقتدار سے کال کوٹھری اور قید وبند کی صعوبتیں کیریئر کا حصہ رہیں، کبھی اٹک قلعہ تو کبھی وزیرِاعظم ہاؤس کے مکین رہے۔
نواز شریف نے سیاست کا آغاز 70ء کی دہائی میں تحریکِ استقلال سے کیا اور پھر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1981ء میں جنرل ضیا الحق کے دور میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات میں کامیابی کے بعد پنجاب کے وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے۔
1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مرکز میں حکومت بنائی اور بینظیر بھٹو وزیرِاعظم منتخب ہوئیں لیکن پنجاب میں اکثریت آئی جے آئی کو ملی اور نواز شریف پھر وزیرِاعلیٰ بن گئے۔
1990ء کے الیکشن میں آئی جے آئی مرکز میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب رہی جس کے بعد نواز شریف نے وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ 1993ء میں صدر اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔ سپریم کورٹ نے صدارتی حکم کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو بحال کر دیا لیکن چند دن بعد وہ خود ہی مستعفی ہو گئے۔
1997ء میں دو تہائی اکثریت سے دوسری بار وزیرِاعظم بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد ہی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے جس کے نتیجے میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور صدر فاروق لغاری کو گھر جانا پڑا۔ 12 اکتوبر 1999ء میں نواز شریف نے آرمی چیف پرویز مشرف کو ہٹانے کی کوشش کی تو انہوں نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ نواز شریف کو گرفتار کر کے اٹک قلعہ میں بند کر دیا گیا اور طیارہ سازش کیس میں انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔
2000ء میں مبینہ معاہدے کے تحت نواز شریف اور فیملی کو دس سال کیلئے سعودی عرب جلا وطن کر دیا گیا۔ 2007ء میں نواز شریف پاکستان واپس پہنچے مگر ائیرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔
بینظیر بھٹو کے آنے کے بعد نواز شریف کی راہ بھی ہموار ہو گئی، مگر عدالتی حکم پر 2008ء کے عام انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں ن لیگ کی اتحادی حکومت قائم ہوئی۔
2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز شریف تیسری بار وزیرِاعظم بنے۔ 2014ء میں عمران خان نے اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا، پھر ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آیا جس کے بعد وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کو مستعفی ہونا پڑا۔
2016ء میں پاناما پیپرز کا معاملہ سامنے آیا جس نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ 2 نومبر 2016ء کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔ 28 جولائی 2017ء میں سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم نواز شریف کو نااہل کرتے ہوئے نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔
13 اپریل 2018ء کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ایف کی تشریح کر دی جس کے تحت نواز شریف تاحیات نااہل قرار پائے۔ چھ جولائی 2018ء کو نیب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو دس سال قید بامشقت اور 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنا دی۔