اسلام آباد: ( روزنامہ دنیا ) انتہائی کم گو اور نفیس شخصیت کے ما لک نامزد نگران وزیر اعظم سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا تعلق سوات کی با اثر فیملی سے ہے جن کا سیاسی گھرانہ ہے، ان کے والد اور بھائی سینیٹر کے عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے دو پی سی اوز میں سے ایک کے تحت حلف اٹھایا جبکہ دوسرے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا اور نائیک فارمولا کے تحت سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر بحال ہوئے۔
وکلا کے حلقوں میں جسٹس (ر) ناصر الملک کو انگلش جج کے لقب سے پکارا جاتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ انگلش میں ہی کورٹ کی کارروائی کو کنڈکٹ کرتے تھے، اگر چہ ان کے بارے میں کسی نے کبھی اعتراض نہیں کیا ہو گا تا ہم پہلا بڑا تنازع اس وقت سامنے آیا جب جاوید ہاشمی نے عمران خان کے حوالے سے ان پر الزام لگایا کہ وہ جوڈیشل مارشل لا لگائیں گے جس پر پہلی مرتبہ جسٹس (ر) نا صر الملک کو عمران خان سے تعلقات نہ ہونے کے بارے میں وضاحت دینا پڑی۔ انہوں نے اس بات کی کمرہ عدالت میں ہی مختصر وضاحت کی کہ وہ عمران خان سے صرف ایک بار ملے تھے جب وہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر تھے اور یہ ملاقات ان کے وکیل حامد خان کی خواہش اور درخواست پر ہوئی تھی اور اس میں دیگر افراد بھی موجود تھے۔
جسٹس (ر) نا صر الملک میڈیا فرینڈلی کبھی نہیں رہے، سپریم کورٹ میں کوئی بھی تقریب ہو انہوں نے ہمیشہ خود کو میڈیا سے دور رکھا، جسٹس اعجاز افضل کی ریٹائرمنٹ کی تقریب میں جب کچھ رپورٹرز نے ججوں سے مصافحہ کیا تو جسٹس (ر) ناصرالملک نے اپنے قریب کھڑے ہم مزاج جسٹس اعجاز افضل سے کہا تھا کہ ہم چلتے ہیں پریس کانفرنس شروع ہو گئی ہے، کچھ میڈیا کے افراد نے اسی تقریب میں جسٹس (ر) نا صر الملک سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی مصروفیات کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ ریٹائر منٹ کے بعد سوات میں زندگی گزاروں گا، وہ کبھی پشاور اور کبھی کبھار اسلام آباد آتے ہیں۔ جسٹس (ر) ناصرالملک نے بطور چیف جسٹس کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا، وہ ان چار ججوں میں شامل تھے جنہوں نے فیصلہ دیا تھا کہ آئینی ترمیم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس (ر) نا صر الملک نے 2013 کے الیکش
ن کمیشن میں دھا ندلی کمیشن کی سربراہی کی اور قرار دیا کہ مسلم لیگ ن دھاندلی میں ملث نہیں تاہم اپنی رپورٹ میں انہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی، جسٹس (ر) ناصرالملک ہمیشہ سب کو خندہ پیشانی اور سکون سے سن کر فیصلہ دیتے تھے، بے شک انتخابی دھاندلی کمیشن میں عمران خان کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کے طویل دلائل ہوں یا کسی عام مقدمے میں غیر معروف وکیل کی باتیں، ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ جج تھے جن کے فیصلے بولتے تھے۔ جسٹس نا صر الملک 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے والے سات رکنی بینچ میں بھی شامل تھے جس کی سربراہی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کی، جسٹس (ر) ناصر الملک پی سی او، این آر او اور 18 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچوں کا بھی حصہ رہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں سزا سنانے والے بینچ کے سربراہ بھی وہی تھے، انہوں نے ہی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو کمرہ عدالت میں کورٹ کے اٹھنے تک عدالت میں رہنے کی سزا دی تھی۔
جسٹس (ر) ناصر الملک پاکستان کے 22 ویں چیف جسٹس تھے جو 6 جولائی 2014 سے 16 اگست 2015 تک اس منصب پر فائز رہے ، وہ سابق سینیٹر کامران خان کے بیٹے جبکہ سابق سینیٹر شجاع الملک اور سابق تحصیل ناظم رفیع الملک کے بھائی ہیں۔ جسٹس (ر) ناصرالملک 17 اگست 1950 کو مینگورہ میں پیدا ہو ئے ان کا تعلق پشتون فیملی سے ہے ، جسٹس (ر) ناصرالملک نے ایک غیر ملکی خاتون سے شادی کی، انہو ں نے ایبٹ آباد پبلک سکول سے میٹرک اور ایڈورڈز کالج پشاور سے گریجوایشن کی، 1977 میں انرٹیمپل لندن سے بار ایٹ لا کرنے کے بعد پشاور میں وکالت شروع کی، 1981 میں پشاور ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری، 1991 اور 1993 میں صدر منتخب ہو ئے، جسٹس (ر) ناصر الملک 4 جون 1994 کو پشاور ہائی کورٹ کے جج بنے ، 31 مئی 2004 کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے عہدے پر فائز ہوئے اور 5 اپریل 2005 کو انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔30 نومبر 2013 سے 6 جولائی 2014 تک قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے فرائض نبھائے۔