26 سال سے فائلوں میں دفن نواز شریف، اسحاق ڈار کی کرپشن کا سکینڈل بے نقاب

Last Updated On 14 May,2018 08:42 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستان کی تاریخ میں حکومت کی طرف سے نجی شعبے میں ملکی تاریخ کا پہلا بڑا بجلی گھر حبکو لگانے کے معاہدے میں کرپشن، بد انتظامی اور کروڑوں ڈالر کے مبینہ کک بیکس کے تحت قومی خزانے کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچانے کے 26 سال سے سرکاری فائلوں میں دفن سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے۔

سکینڈل میں حال ہی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق وزیر خزانہ پاکستان اسحاق ڈار کے علاوہ کئی سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کا ملوث ہونا خارج از امکان نہیں جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں کی غفلت اور لاعلمی بھی اس بڑے سکینڈل کے پوشیدہ رہنے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر کار فرما نظر آتی ہے، یہ بات بھی تہلکہ خیز ہے کہ کمپنی کے موجودہ مالکان یا ڈائریکٹرز میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور نواز شریف کے قریبی صنعتکار دوست حسین داؤد بھی شامل ہیں۔ دنیا نیوز کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ جونیجو حکومت نے 1988 میں سعودی عرب کی کمپنی ژینل اور برطانیہ کی ہاکر سڈلی پاور انجینئرنگ لمیٹڈ کو حب میں 1200 میگاواٹ کا فرنس آئل سے چلنے والا بجلی گھر لگانے کا لیٹر آف انٹینٹ (خط رضامندی) جاری کیا۔ اس خط کے تحت بجلی گھر کی عمر 23 سال مقرر کی گئی جس کے تحت 1 ارب 50 کروڑ ڈالر کا یہ بجلی گھر ایک روپے کی علامتی قیمت پر حکومت پاکستان کی ملکیت میں دینا ہوگا۔ صارفین 1 ارب 14 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے قرض کی رقم 60 فیصد کی شرح سے کیپسٹی چارجز کی مد میں ادا کر چکے ہیں۔

پہلی نواز شریف حکومت نے خط رضامندی کی شرائط چپکے سے بلٹ، آپریٹ اینڈ ٹرانسفر سے تبدیل کر کے بلٹ، آپریٹ اینڈ اوون (بناؤ، چلاؤ اور رکھو یا بی او او) کر دی تھیں اس اہم تبدیلی کیلئے شفافیت کے رائج الوقت بین الاقوامی طے شدہ اصولوں کے بر خلاف کوئی نیا اشتہار شائع نہیں کیا گیا اور نہ ہی نئی پیشکشیں طلب کی گئیں بلکہ اس ٹھیکے کی متوقع خواہشمند کمپنیوں کو "بی او او " کی نئی شرط کے تحت بولی میں حصہ لینے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ تحقیقات کے مطابق نواز شریف حکومت نے 3 اگست 1992 کو حب پاور کمپنی سے بجلی خریدنے، منصوبے پر عملدرآمد اور ایندھن کی فراہمی کے 3 معاہدوں پر دستخط کر دیئے لیکن ان معاہدوں سے بجلی گھر کی 23 سال بعد حکومت پاکستان کی ملکیت میں دینے کا ذکر غائب کر دیا گیا۔ اس وقت واپڈا کے چیئرمین نواز شریف خاندان کے صنعت کار دوست ممتاز حمید تھے،جو انتقال کر گئے، اس سے قبل بجلی گھر کی پیداوار صلاحیت 1200 سے بڑھا کر 1292 میگاواٹ کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔

پلاننگ کمیشن کی ایک دستاویز سے چشم کشا انکشاف ہوا ہے کہ بے نظیر بھٹو شہید کے دور حکومت میں اگر حبکو سے 30 سال بعد بجلی گھر قومی ملکیت میں لینے کا معاہدہ کر لیا جاتا ہے تو واپڈا کو نجی شعبے میں دینے کی تجویز پر عملدرآمد کی صورت میں کوئی سرکاری ادارہ اس بجلی گھر کو چلانے کیلئے اس وقت موجود ہی نہیں ہوگا، نواز شریف حکومت نے بجلی گھر کو قومی ملکیت میں لینے کی شق تبدیل کر دی لیکن حقیقت حال سب کے سامنے ہے کہ 29 سال بعد بھی واپڈا قومی ادارے کے طور پرکام کر رہا ہے اور اس بنا پر شق کی تبدیلی سنگین غلطی ثابت ہوگئی ہے۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمن کے ذریعے حبکو اور دیگر نجی پاور کمپنیوں کیخلاف مقدمات دائر کر دیئے گئے لیکن اس وقت کے وفاقی وزیراسحاق ڈار اور حبکو کے سی ای او خورشید حسن میر کے درمیان کئی مذاکراتی ادوار کے بعد معاملات طے پاگئے، کیس ختم ہوگئے اور کمپنی کو دوبارہ کام کرنے کا موقع مل گیا۔ 1999 میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی حبکو کیخلاف انکوائری کرائی گئی لیکن معاملہ ٹیرف سے متعلق معاہدے کی شقیں تبدیل کرنے تک ہی محدود رہا۔ اس بجلی گھر کے اکثریتی حصص انتظامی کنٹرول کے ساتھ 2015 میں حسین داؤد نے خرید لئے جبکہ اس کے پارٹنرز میں الائیڈ بینک اور فوجی فاؤنڈیشن بھی شامل ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ حب پاور کمپنی کے ڈائریکٹرز میں حال ہی میں منتخب ہونیوالے چیئرمین سینیٹ صادق علی سنجرانی کا نام بھی ہے ،1998 میں وفاقی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں رپورٹ پیش کی گئی لیکن اس وقت کے چیئرمین پی اے سی ایم حمزہ نے پہلی پیشی پر ہی اس پر بحث غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی اور اب 20 سال گزرنے کے باوجود حبکو کی سپیشل آڈٹ رپورٹ پر بحث پی اے سی کی فائلوں میں زیر التوا ہے ۔دنیا نیوز کی ای میل کے جواب میں حسین داؤد کی طرف سے حبکو کے کمپنی سیکرٹری شمس الاسلام نے موقف دیا کہ حبکو کے واپڈا سے معاہدوں میں پلانٹ کی نوعیت بی او ٹی سے بی او او میں تبدیل کرنے میں کمپنی کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی اس میں کمپنی کی موجودہ مینجمنٹ کا کوئی قصور ہے ۔آڈیٹر جنرل پاکستان کے دفتر میں موجود ایک فائل سے بھی حبکو کی طرف سے 1997 میں اسی قسم کے موقف کی دستاویز ملی ہے ۔کمپنی کا تازہ ترین موقف جاننے کیلئے 4 مئی اور 11 مئی 2018 کو اسکے صدر دفتر کراچی سے فون پررابطہ کیا گیا لیکن موجودہ کمپنی سیکرٹری مسٹر شہریار کی جانب سے آپریٹر نے پیغام دیا کہ اس بارے میں کمپنی ترجمان علی سعید سے بات کرائی جارہی ہے لیکن کافی انتظار کے بعد کال ڈراپ کردی گئی۔قومی اہمیت کے حوالے سے دنیا نیوز کی تحقیقاتی رپورٹ قومی احتساب بیورو (نیب) کے از خود نوٹس کی متقاضی ہے ۔