لاہور: (سپیشل فیچر) ایک تحقیق کے مطابق ‘’انٹرنیٹ گیمنگ ڈس آرڈر’’ تیزی سے بڑھتا ہوا مرض ہے۔ انٹرنیٹ کئی اہم مصروفیات پر حاوی ہو گیا ہے۔
بدلتے زمانے میں لوگوں کی عادات بھی بدلتی جا رہی ہیں، کسی کو وڈیو گیمز کی عادت پڑ گئی تو اسے نہیں پتا چلتا کہ کب صبح ہوتی ہے اور کب شام، نیند بھی وڈیو مشین کے ساتھ آتی ہے، اسی کے ساتھ آنکھ کھلتی ہے۔
کوئی کھیل کود میں اس قدر مشغول رہتا ہے کہ پڑھائی کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا۔ کسی کو سگریٹ نوشی کی عادت پڑ جاتی ہے اور باوجود کوشش کے وہ اس سے بچ نہیں پاتا۔
اس کے برعکس کچھ لوگ آسانی سے سگریٹ نوشی ترک کر دیتے ہیں۔ کسی کو ہر وقت کھانے پینے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے کو مانگتے رہتے ہیں۔
شاپنگ کے شوقین کو پاس کے شاپنگ مالزکے چکر لگانے کیلئے کبھی وقت کی کمی نہیں ہوتی۔ جواری، جوئے کے اڈے میں زندگی برباد کرنے کے بعد ہی گھر لوٹتے ہیں۔ ہوس لت بھی بن سکتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی بچہ یا بڑا بہت جلدی کسی عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے؟ کچھ لوگ اپنے ساتھیوں کو دیکھتے ہوئے بھی اس عادت سے بچے رہتے ہیں۔
بہت سے بچوں کی اپنی اپنی عادات ہیں جن سے والدین بھی تنگ ہوتے ہیں اور تعلیمی ادارے بھی، لیکن کچھ نہیں کر پاتے۔ کچھ بڑے اور بچے بھی، ان عادات میں جلدی کیوں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ دور کرنے کی کوشش کے باوجود بھی اس عادت سے بچ نہیں پاتے۔
نشہ یا لت کیا ہوتی ہے؟
حال ہی میں بیرون ملک ایک نئی تحقیق شروع کی گئی ہے۔ تحقیق کا مقصد یہ جاننا ہے کہ انسانی جینز میں ایسی کوئی خرابی تو نہیں پائی جاتی تو آگے چل کر فرد کو کسی بھی کام، چیز یا نشے کا عادی بنا دیتی ہے یعنی ‘لت’ کی ذمہ داری جینز پر ڈالنے کی تحقیق شروع کر دی گئی ہے۔
اسی موضوع پر منظر عام پر آنے والے ایک مضمون The Fault in Our Genes: Understanding Addiction as a Disease‘‘ میں روشینہ زہرہ لکھتی ہیں کہ جس طرح کارڈیو ویسکلر بیماریاں دل کو، ذیابیطس لبلبے کو بیمار کر دیتا ہے، عین اسی طرح نشہ بھی دماغ کو ہائی جیک کر لیتا ہے۔
لیکن اگر کسی فرد میں پہلے سے ہی کوئی جینیاتی پائی جاتی ہو تو اس صورت میں فرد کا رجحان نشے کی جانب تیزی سے بڑھتا ہے، یعنی جیناتی خرابی انسان کو نشے کا عادی بننے میں مدد دیتی ہے۔
یہ نشہ یا عادت کسی بھی چیز کی ہو سکتی ہے جیسا کہ کسی کو وڈیو گیمز کی عادت پڑ جاتی ہے تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ منشیات میں مبتلا ہونے کا 40 سے 60 فیصد تک تعلق جینیاتی عوا مل سے ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر یوسف مرچنٹ کے نزدیک لت دراصل کردار کی خامی ہے۔ ان کے نزدیک یہ جینز کی خرابی کی ایک علامت ہے، بذات خود خرابی نہیں ہے۔
انہوں نے کسی بھی چیزکی لت کو دماغی مرض قرار دیا ہے۔ تاہم ان کے نزدیک اگر کردار میں کوئی خامی ہے تو اس کا حل بھی ہونا چاہیے۔
ایسے افراد کو سب سے پہلے گھر، دفتر، محلے یا شہر بدر کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ کیا واقعی ایسے لوگوں کو معاشرے سے الگ کر دیا جائے؟
الگ تھلگ رہ کر وہ سنبھل جائیں گے یا مزید برائی کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے؟
ماہرین نے اس کا جواب نفی میں دیا ہے۔ ان کے نزدیک ان بیماروں کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس بارے میں ہارورڈ یونیورسٹی میں بھی کافی تحقیق کی گئی ہے۔ ایک مقالے کا موضوع ہے ‘’کیا لت دماغی مرض ہے’’۔ ڈاکٹر برائر مائیکل لکھتے ہیں کہ اس حوالے سے کئی نکات زیر غور لائے جا سکتے ہیں۔
یہ ایک طرح کا بائیولوجیکل ڈس آرڈر ہے۔ دوسرے جسمانی عوارض کی طرح ان امراض کے تدارک کی تحقیق کے لئے بھی اضافی فنڈز مخصوص کئے جانا چاہیں۔
شخصیت پر داغ یا شرم سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے، کیونکہ ان عادات میں مبتلا اشخاص کو کمزور اخلاقیات کا مالک یا دوسروں کے پیسوں پر موج کرنے کا الزام بھی دھرا جاتا ہے۔
ایک رائے کے مطابق دماغی خلیوں میں پیدا ہونے والی خرابی کو دور کرنے سے بری عادت سے سے چھٹکارا مل سکتا ہے لیکن فی الحال اس کا علاج دریافت نہیں کیا جا سکا۔
محققین کے مطابق سن بلوغت کو پہنچنے والے نوجوانوں کا دماغ پوری طرح تیار نہیں ہوتا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی پلاسٹک کی مانند اور کمزور ہوتا ہے۔
بیرونی مداخلت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اس عمر میں کسی بھی قسم کا ٹراما یا منشیات کی جانب جھکاؤ دیرپا خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔
دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق میں ڈاکٹر نورا والکوف کے مطابق پہلے کہا جاتا تھا کہ اس کا تعلق کافی حد تک طرز عمل سے بھی ہوتا ہے۔
جن لوگوں کے frontal cortices زیادہ بہتر طور پرڈویلپ ہو جاتے ہیں، ان میں کسی بھی مختلف طرز عمل ظاہر کرنے کی طاقت دوسروں کی بہ نسبت قدرے زیادہ ہوتی ہے۔
یہاں طوطے کی مثال دینا بھی غلط نہ ہوگا۔ اچھے اور برے کی تمیز کسی حد تک طوطے میں بھی ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس کام پر انعام ملے گا اور کس حرکت پر اس کی یا اس کے سامنے کسی شخص کی مرمت ہو سکتی ہے۔
لت میں مبتلا اشخاص اپنی آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔ کئی طرح کی معاشی اور سماجی پابندیوں کے بعد وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کے حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ہم پری فرنٹل کارٹیکس (انتظامی کام کرنے والا دماغ کاحصہ) کی خامیوں کو دور کرکے بیماری کی شدت میں کمی لا سکتے ہیں۔
سیلف مانیٹرنگ سمت کئی دیگر اہم امور کی انجام دہی میں اسی کا دخل ہوتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ نشہ نہ ملنے کی صورت میں پیدا ہونے ولا کھچاؤ کیسے دور کیا جائے؟ یہ تحقیق تاحال کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکی۔ شدید مایوسی پیدا ہونے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
کچھ نشیئوں کو بدبوؤں کی لت لگ جاتی ہے جیسا کہ پالش، جوڑنے والے کیمیکلز۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کچھ لوگ نشئی اس جگہ کو ہی گھورتے رہتے ہیں جہاں سے نشہ ملتا ہے۔
نشہ استعمال کرنے کے دوران دماغ میں نشہ پیدا کرنے والے کیمیکلز (intoxicating brain chemicals) جن میں ڈوپامین اہم ہے۔ یہ کیمیکلز نیورو ٹرانسمیٹرز پر اثر انداز ہو کر غمی اور خوشی کی وجوہات یا اسباب کو بدل دیتے ہیں۔
یعنی ایک عام آدمی جن باتوں سے خوش ہوتا ہے، نشئی کو ان باتوں سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا۔ جیسا کہ دوستوں کی محفل، سوئمنگ، کھیل یا غروب آفتاب کا دل کش نظارہ۔
نشئی ان باتوں میں صحت مند شخص کی بہ نسبت زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے ڈرگز اینڈ کرائم کی رپورٹ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ نشئی سب سے بڑی جمہوریت میں پائے گئے تھے۔ 2001ء میں 7.32 کروڑ افراد نشئی تھے۔ جن میں سے ساڑھے چھ ہزار ہلاک ہو گئے۔
انٹرنیٹ گیمنگ ڈس آرڈر
اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے نسٹ کی تحقیق کے مطابق ‘’انٹرنیٹ گیمنگ ڈس آرڈر’’ تیزی سے بڑھتا ہوا مرض ہے۔ صدف زہرہ، صدف ضیاء، شعیب کیانی اور کنول شہباز کی تحقیق نے بتایا کہ انٹرنیٹ کئی اہم مصروفیات پر حاوی ہو گیا ہے۔
بچے انٹرنیٹ گیمز میں کھوئے رہتے ہیں، کرنے کے کئی کام رہ جاتے ہیں۔ جنگ سے متعلق گیمز مقبول ترین ہیں۔ والدین ان کے اثرات سے ناواقف ہیں۔
وہ نہیں جانتے کہ بچوں کا مستقبل کس بری طرح جکڑا جا چکا ہے۔ وہ اب خود کے کنٹرول میں بھی نہیں رہے۔ ان جنگی قسم کی گیمز نے دل اور دماغ کو مسخر کر لیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او وڈیو گیمز کو عالمی بیماری اور مینٹل ڈس آرڈر قرار دے چکا ہے، اس کا علاج نہایت ضروری ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے نزدیک وڈیو گیمز کو ضرورت سے زیادہ وقت دینے والا ذہنی مریض ہو سکتا ہے۔