لندن: (ویب ڈیسک) آکسفورڈ نے ایک شخص کے اچانک بیمار ہونے کے سبب کورونا وائرس ویکسین کا تجرباتی عمل روک دیا ہے جبکہ تیار کرنے والی دوا ساز کمپنیوں نے ٹیکہ تیار کرنے میں تمام حفاظتی اقدامات پر عمل کرنے کا عہد کیا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی نے کورونا ویکسین میں شامل ہونے والے رضا کار میں نامعلوم بیماری کا پتہ چلنے کے بعد تیسرے مرحلے کا تجرباتی عمل معطل کر دیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی آسٹرا زینکا مشترکہ طور پر کورونا کے لیے یہ ویکسین تیار کر رہے تھے جو کلینکل تجربے کے تیسرے مرحلے میں تھا اور جس کے جلد ہی بازار میں آنے کی باتیں بھی کی جا رہی تھیں۔
آسٹرازینکا نے شریک امریکی کمپنی کو بتایا کہ تجربے کے دوران ایک رضاکار کے نامعلوم بیماری سے شدید طور پر مبتلا ہونے کی وجہ سے تیسرے مرحلے کے تجرباتی عمل کو معطل کیا گیا ہے۔
کمپنی کے ترجمان نے بتایا کہ آکسفورڈ کورونا وائرس ویکسین کی عالمی تجربے کے ایک حصے کے طور جو آزمائش جاری تھی، اس میں ہمارے معیار کے مطابق کچھ خرابی کا پتہ چلا اس لیے ہم نے رضاکارانہ طور پر اسے روک دیا ہے تاکہ ایک آزاد کمیٹی سیفٹی سے متعلق ا س کے ڈیٹا کا جائزہ لے سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک معمول کی بات ہے کہ دوا کے آزمائشی مرحلے میں جب کسی بیماری کا پتہ چلتا ہے تو اس کا تجربہ روک دیا جاتا ہے تاکہ اس کے سیفٹی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا سکے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے عالمی سطح پر اس وقت کورونا کے علاج کے لیے ٹیکہ کی تیاری میں تقریباً 180 دواؤں پر تجربات کیے جارہے ہیں تاہم اس برس کے اختتام تک اصول و ضوابط کے تحت کسی بھی ایسی ویکسین کے تیار ہونے کے امکانات بہت کم ہیں جو موثر ثابت ہو۔
جرمنی میں ویکسین تیار کرنے والی معروف کمپنی بائیو این ٹیک اور کورونا ویکسین تیار کرنے والی عالمی سطح کی دیگر معروف آٹھ دوا ساز کمپنیوں نے ان خدشات کے پیش نظر کہ کہیں جلد بازی میں کووڈ 19 کا ویکسین سیاسی دباؤ کا شکار نہ ہو جائے، اپنی ان کوششوں میں سائنسی سالمیت اور اس سے متعلق تمام اصول و ضوابط پر عمل کرنے کا عزم کیا ہے۔
آسٹرا زینیکا، بائیو این ٹیک اور موڈرنا جیسی عالمی دوا ساز کمپنیوں کے سربراہان نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم بائیو فارماسوٹیکل کمپنیاں اس بات کو واضح کر دینا چاہتی ہیں کہ کورونا کے لیے ویکسین تیار کرنے اور اس کے تجرباتی مراحل میں تمام اعلی اخلاقی معیاروں اور ٹھوس سائنسی اصول و ضوابط پر عمل کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
صحت عامہ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس جیسی مہلک وبا کا علاج ایک کامیاب ٹیکے پر منحصر ہے۔ عالمی سطح پر اب تک اس وبا سے تقریباً ڈھائی کروڑ افراد متاثر ہوچکے ہیں اور دس لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
دنیا کی کئی بڑی کمپنیاں اس کے لیے ایک ویکسین تیار کرنے کی کوشش میں ہیں اور اس سلسلے میں جلد از جلد ٹیکہ تیار کرنے کی دوڑلگی ہوئی ہے لیکن عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق ابھی تک کوئی بھی ایسی کوشش کلینیکل آزمائش کے مرحلے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے یہ عہد ایسے وقت کیا گیا ہے جب کورونا کی ممکنہ ویکسین کے تحفظ کے حوالے سے طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بعض سائنسدانوں نے اس بات کے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ویکسین کی دریافت سیاست کی نذر ہوتی جاری ہے اور اگر ایسا ہوا تو عوام کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
دوا ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ تیسرے مرحلے کا ویکسین کا کلینکل تجربہ ریگولیٹری حکام اور ماہرین کی اسٹڈی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اور اس معیار کے مطابق جب تک سٹڈی کے ذریعے اس کے تحفظ اور افادیت کا مظاہرہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک حکام سے اس کی اجازت طلب نہیں کی جائے گی۔
رواں برس کے آغاز میں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریٹر (ایف ڈی اے) نے کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے ہائیڈروکسی کلوروکوئین نامی دوا اور بلڈ پلازما کے استعمال کی منظوری دی تھی۔ لیکن بعض ماہرین نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ ان دواؤں کی محفوظ افادیت کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی ثبوت ناکافی ہیں۔ ا س کے بعد ایف ڈی اے نے اپنے فیصلوں کو واپس لے لیا تھا۔
ان تمام خدشات کے باوجود روس اور چین جیسے ممالک نے بعض دوائیں تیار کر لی ہیں اور کورونا کے مریضوں کو دی جانے لگی ہیں۔ لیکن اس طرح کی تمام دواوں کو ڈبلیو ایچ او نے زیر آزمائش قرار دیا ہے۔