کورونا وائرس کے دوران عالمی قیادت کا بحران خود وبا سے بڑا چیلنج ہے: عالمی ادارہ صحت

Last Updated On 22 June,2020 07:11 pm

دبئی: (دنیا نیوز) عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران عالمی قیادت کا بحران خود وبا سے بڑا چیلنج ہے۔

دبئی میں" ورلڈ گورنمنٹ سمٹ" سے ویڈیو لنک کے ذریعہ خطاب میں ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم کا کہنا تھا کہ عالمی قیادت کے بحران اوروبا کو سیاسی رنگ دینے کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔

واضح رہے کہ یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب امریکا اور چین کے درمیان کورونا وائرس کی وباء کے باعث شدید تناؤ ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو الزام لگا چکے ہیں کہ کورونا وائرس چینی لیبارٹری میں تیار کیا گیا جبکہ چینی قیادت ان الزامت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا کو وبا کے خلاف عالمی اتحاد اور مشترکہ کاوش کی بےحدضرورت ہے، جب تک دنیا کے سب انسان وبا سے محفوظ نہیں ہوجاتے تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

دوسری طرف نئے کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں متعدد ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے، جن میں سے چند ایک ہی انسانی آزمائش کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔

اب تک عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ اس وبا کی روک تھام کے لیے ویکین کی تیاری اگلے سال تک ممکن نہیں، مگر اب پہلی بار عالمی ادارے نے توقع ظاہر کی ہے کہ رواں سال ہی ویکسین تیار ہوسکتی ہے۔

عالمی ادارے کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے توقع ظاہر کی کہ رواں سال ویکسین کے کروڑوں ڈوز تیار ہوجائیں گے جبکہ اگلے سال کے آخر تک 2 ارب ڈوز دستیاب ہوں گے۔

عالمی ادارہ صحت نے منصوبہ بندی بھی شروع کردی ہے تاکہ یہ فیصلہ کرنے مدد مل سکے کہ ویکسین کی منظوری کے بعد اولین ڈوز کے فراہم کیے جائیں۔

طبی عملے ، عمر یا دیگر امراض کے نتیجے میں وائرس کے سامنے زیادہ کمزور افراد یا ایسے مقامات پر کام کرنے والے جہاں وائرس کے پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوگا، کو ترجیح دی جائے گی۔

سومیا سوامی ناتھن نے کہا  کہ میں پرامید اور توقع رکھتی ہوں، مگر ویکسین کی تیاری ایک پیچیدہ کام ہے، اس حوالے سے بہت کچھ غیریقینی ہے، اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے پا متعدد ویکسینز اور پلیٹ فارمز ہوں گے، تو اگر پہلی یا دوسری کوشش میں ناکامی ہوتی ہے تو ہماری امیدیں ختم نہیں ہوں گی، ہم ہار نہیں مانیں گے۔

اس وقت 10 ویکسینز انسانی آزمائش کے مرحلے سے اس توقع سے گزر رہی ہیں کہ وہ آنے والے مہینوں میں دستیاب ہونے کے بعد کووڈ 19 کی وبا کو روک سکیں گی۔ مختلف ممالک نے ویکسین کے ڈوز کے لیے کمپنیوں سے معاہدے بھی کرنا شروع کردیئے ہیں حالانکہ ابھی کوئی بھی ویکسین موثر ثابت نہیں ہوئی ہے۔

عالمی ادارے کی چیف سائنسدان نے کہا کہ رواں برس کروڑوں ڈوز کی دستیابی کا عزم امید جگاتا ہے اور اگلے سال 3 مختلف ویکسینز کے 2 ارب ڈوز کی توقع بہت بڑی ہے۔ جینیاتی تجزیے کے ڈیٹا سے اب تک ثابت ہوا ہے کہ نئے کورونا وائرس میں اس طرح تبدیلیاں نہیں آئی ہیں جو اس سے ہونے والی بیماری کی شدت پر انداز ہوسکیں۔ اب تک جو ویکسینز تیزی سے پیشرفت کررہی ہیں ان کے بارے میں جانیں، جن کی کامیابی کا انتظار پوری دنیا کو ہے۔

موڈرینا
امریکی کمپنی کی ویکسین ایم آر این اے 1273 پہلی ویکسین تھی جو انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل ہوئی تھی، جس کی تیاری کے لیے میسنجر ایم آر این تیکنیک استعمال کی جارہی ہے، اس طریقہ کار میں ویکسین کی تیاری کے لیے ایک وائرس کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے نئے نوول کورونا وائرس کی سطح پر موجود ایک اہم اسپائیک پروٹین بناتا ہے، یہ پروٹین وائرس کو خلیات میں داخل ہونے کا موقع دیتا ہے۔

اس طریقہ کار تیار ہونے واللی ویکسین جب انجیکٹ کی جاتی ہے تو وہ مدافعتی خلیات تک جاکر انہیں اسپائیک پروٹین کی نقول بنانے کی ہدایت دیتی ہے، یعنی ایسے کام کرتی ہے جیسے خلیات کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔

اس سے دیگر مدافعتی خلیات میں وائرس سے تحفظ کے لیے امیونٹی پیدا ہوتی ہے، یہ ویکسین اس وقت انسانی ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جس میں اس کے محفوظ ہونے اور افادیت کو جانچا جائے گا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی آسترا زینکا کے ساتھ مل کر کووڈ 19 ویکسین پر کام کرہی ہے جس کے لیے نزلہ زکام کے ایک عام وائرس adenovirus کی کمزور قسم کو استعمال کیا جارہا ہے جو چیمپنزی سے لیا گیا۔

اس وائرس کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا گیا اور وہ اپنی نقول نہیں بناسکتا، اس ویکسین میں اسپائیک پروٹین کے جینز کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ مدافعتی نظام جسم میں نئے نوول کورونا وائرس کو تباہ کرسکے۔

اس کی انسانی آزمائش اپریل میں شروع ہوئی تھی اور 18 سے 55 سال کی عمر کے ایک ہزار سے زائد افراد پر استعمال کیا گیا تھا تاکہ دیکھا جاسکے کہ کس حد تک کارآمد ہے، اس کے نتائج رواں ماہ یا جولائی میں سامنے آسکتے ہیں۔

اب محققین دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے 10 ہزار سے زائد بالغ افراد اور بچوں کو شامل کررہے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے رضاکاروں کو ایک سے 2 ڈوز یا تو کووڈ 19 ویکسین یا ایک لائنسنس ویکسین کے دیئے جائیں گے تاکہ موازنہ کیا جاسکے۔

کورونا وائرس سے متاثر دوسرے بڑے ملک برازیل نے بھی کلینیکل ٹرائلز میں شمولیت اختیار کی ہے اور اس کے ڈوز وہاں بھی 2 ہزار رضاکاروں میں آزمائے جائیں گے۔

دوسری جانب آکسفورڈ اور دیگر سے معاہدے کے بعد آسترا زینکا 2 ارب سے زائد ڈوز عالمی سطح پر فراہم کرنے کے لیے تیار ہے اور توقع ہے کہ 2020 کے آخر تک 40 کروڑ ڈوز سپلائی ہوجائیں گے جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین اس ویکسین کو ستمبر تک متعارف کرانے کے لیے پرعزم ہیں۔

بل گیٹس پہلے ہی اربوں ڈالرز ویکسیین کی تیاری پر خرچ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور ان کے فلاحی ادارے بل ینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرتحت تیار ہونے والے کووڈ 19 ویکسین کے لیے 75 کروڑ ڈالرز دینے کا اعلان کیا ہے۔

فیزر اور بائیو این ٹیک
یہ کمپنیاں 4 ویکسینز کی آزمائش کررہی ہیں اور ہر ایک میں ایم آر این اے استعمال کیا جارہا ہے مگر ہر ایک میں ایم آر این اے کا امتزاج مختلف ہے تاکہ اینتی جینز کو ہدف بناکر اینٹی باڈیز تیار کی جاسکیں۔

بی این ٹی 162 نامی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش جرمنی اور امریکا میں ہورہی ہے اور ابھی یہ پہلے مرحلے سے گزر رہی ہے، جس میں تحفظ، امیونٹی کی صلاحیت اور ممکنہ مقدار کی جانچ پڑتال 4 رضاکاروں پر کی جارہی ہے۔

ابتدائی طور پر اس کی آزمائش 18 سے 55 سال کے افراد پر ہورہی ہے اور ایک بار دی گئی ڈوز کی مقدار محفوظ اور موثر ثابت ہوئی تو کمپنی کو توقع ہے کہ بزرگ افراد میں وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجائے گی۔

فیزر کی جانب سے پیشگوئی کی گئی ہے کہ 2020 میں لاکھوں ڈوز تیار کرلیے جائیں گے جبکہ 2021 میں کروڑوں ڈوز تیار کیے جائیں گے۔

انوویو
اس امریکی کمپنی کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا پہلا مرحلہ 40 رضاکاروں کے ساتھ شروع ہوا تھا، اس میں ڈی این اے ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے تاکہ ایک مخصوص مدافعتی ردعمل پیدا کیا جاسکے۔

ایک اسمارٹ ڈیوائس کو معمولی برقی جھٹکے کے لیے استعمال کرکے جلد کے ننھے مسام کھولی جاتی ہیں تاکہ ویکسین کو دیا جاسکے۔

ایک بار جب ڈی این اے خلیے کے اندر پہنچ جاتا ہے تو وہ مصنوعی ڈی یان اے کی متعدد نقول بنانے کی ہدایت دیتا ہے اور جسم کے قدرتی مدافعتی ردعمل کو متحرک کردیتا ہے۔

ٹرائل کے پہلے مرحلے کے نتائج رواں ماہ متوقع ہیں اور اس کے بعد دوسرے مرحلے کا ترائل شروع ہوگا جبکہ چین اور جنوبی کوریا میں بھی انسانی ٹرائل متوقع ہیں۔

اس کمپنی نے متعدد اداروں سے اشتراک کیا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر اس کی تیاری ممکن بنائی جاسکے۔

کین سینو
چین کی اس کمپنی کی جانب سے بیجنگ انسٹیٹوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر کورونا وائرس ویکسین پر کام کیا جارہا ہے اور اس کے لیے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ adenovirus ایڈ 5 استعمال کیا جارہا ہے۔

مئی کے آخر میں محققین نے انسانی آزمائش کے پہلے مرحلے کے نتائج جاری کیے تھے جس کے دوران 108 افراد کو کم، درمیانی اور زیادہ 3 ڈوز دی گئی تھیں۔

چینی سائنسدانوں نے بتایا کہ نئے نوول کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے والے اینٹی باڈیز ویکسین لگنے کے دن رضاکاروں میں صفر فیصد تھے اور 14 دن میں ان میں معتدل اضافہ ہوا جبکہ ویکسین لگنے کے 28 دن بعد ان کی سطح عروج پر پہنچ گئی۔

انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ان اینٹی باڈیز کا ارتکاز ڈوز کی طاقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔

اسی طرح لگ بھگ تمام رضاکاروں میں وائرس کو دبانے والے اینٹی باڈیز کی سطح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔

محققین نے مدافعتی ردعمل کے ایک اور اہم جز ٹی سیلز کی بھی جانچ پڑتال کی جو وائرس کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ ویکسین لگنے کے 2 ہفتے بعد ٹی سیلز کی سطح عروج پر پہنچ گئی۔

کمپنی کی جانب سے اپریل میں انسانی ٹرائل کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا تھا اور چین کی جانب سے ستمبر تک ویکسین کو متعارف کرانے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔

سینویک بائیو ٹیک لمیٹڈ
چین کی کمپنی سینویک بائیو ٹیک لمیٹڈ نے چند دن پہلے اعلان کیا تھا کہ انسانی ٹرائل کے دوران کورونا وائرس کے خلاف اس کی ویکسین محفوظ ثابت ہوئی اور مدافعتی ردعمل کو بہتر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

بیجنگ سے تعلق رکھنے والی کمپنی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق انسانی ٹرائل اس ویکسین جسے کورونا ویک کا نام دیا گیا ہے، سے سنگین مضر اثرات مرتب نہیں اور جن افراد کو اس کا استعمال کرایا گیا، ان میں 2 ہفتے بعد وائرس کے خلاف مضبوط مدافعتی ردعمل پیدا ہوا جن میں ایسی اینٹی باڈیز بھی شامل تھیں جو وائرس کو ناکارہ بنانے کے لیے ضروری ہیں۔

کمپنی کی جانب سے اس ویکسین کے انسانوں پر پہلے اور دوسرے مراحل کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے جن میں 18 سے 59 سال کی عمر کے 743 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا۔ پہلے مرحلے میں 143 جبکہ دوسرے مرحلے میں 600 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

ان افراد کو 2 شیڈولز میں ویکسین کے ڈوز یا ایک پلیسیبو (ایک بے ضرر مادہ جو دوائی کے طور پر دیا جاتا ہے) کا استعمال کرایا گیا۔

جن افراد کو ویکسین کا استعمال کرایا گیا ان میں 14 دن بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 90 فیصد سے زیادہ تھی جبکہ کسی قسم کے شدید مضر اثرات بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔

کمپنی کے ترجمان کے مطابق ایک اور گروپ پر ویکسین کے نتائج بھی جلد جاری کیے جائیں گے جن میں ٹرائل کا دورانیہ 28 دن کا تھا اور ان نتائج کو تدریسی جرائد میں شائع کیا جائے گا۔ اس کے بعد تیسرے اور آخری مرحلے کے آغاز کے لیے درخواست کی گئی۔