لاہور: (دنیا نیوز) کووڈ 19- نظام تنفس کی ایک انفیکشن ہے جس کی نشاندہی سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں دسمبر 2019ء میں کی گئی۔
اس کا سبب کورونا وائرس کی نئی قسم ہے جسے سارس کوو2- (سویئر اکیوٹ ریسپی ریٹری سنڈروم کورونا وائرس 2) کا نام دیا گیا ہے۔ وائرسز اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے نام عموماً ایک جیسے نہیں ہوتے۔
انسان اس بیماری کو کب پھیلانے کے قابل ہوتے ہیں؟: سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (امریکا) کے مطابق کووڈ19- کے متعدی ہونے کی صلاحیت کے بارے میں مکمل معلومات نہیں۔ بعض تحقیقات کے مطابق جن افرادکا واسطہ کورونا وائرس سے پڑتا ہے وہ اس متعدی وائرس کو خارج کرتے ہیں اور علامات ظاہر ہونے سے قبل ہی دوسروں کو انفیکٹ کر دیتے ہیں۔ سائنس دانوں کو یہ بھی پتا چلا ہے کہ صحت یابی کے بعد بھی بعض افراد وائرس خارج کرتے رہتے ہیں تاہم یہ معلوم نہیں کہ وہ متعدی وائرس کو پھیلاتے ہیں یا محض ان کے ٹوٹے پھوٹے اور غیرسرگرم اجزا کو۔
کیا بعض انسانی گروہوں کو دوسروں کی نسبت کووڈ19- کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے؟: سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) کے مطابق مارچ 2020ء کے وسط تک کووڈ19- کے بیشتر تصدیق شدہ کیسز بالغوں میں تھے۔ تمام عمر کے بچوں میں انفیکشن کی اطلاعات ہیں، لیکن اعدادوشمار کے مطابق زیادہ عمر کے بالغ (60 برس یا اس سے زائد) میں کووڈ19- کی شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جس کا ممکنہ سبب عمر کے ساتھ نظامِ مدافعت میں آنے والی تبدیلی ہے جو بیماری اور انفیکشن کو شکست دینا مشکل بنا دیتی ہے۔ دیرینہ امراض جیسا کہ گردوں، پھیپھڑوں یا دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اگر ایسے مسائل موجود ہوں تو جسم کے لیے بحالی دشوار ہو جاتی ہے۔
کیا یہ وائرس پھیلنے کے ساتھ تبدیل بھی ہو رہا ہے؟: تمام وائرس تبدیل (میوٹیٹ) ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کے جینوم میں بدلاؤ آتا ہے۔ وائرسز میں یہ ایک قدرتی امر ہے۔ عالمی سطح پر پھیلاؤ کے دوران گزشتہ ماہ کے آخر تک سارس کوو2- کے جینوم میں چند تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ ان تبدیلیوں سے اس کے انفیکشن کے سفر کا پتا چلایا جا سکتا ہے لیکن ان سے وائرس بظاہر زیادہ خطرناک یا متعدی نہیں ہوا۔
میں وائرس کے خطرے اور پھیلاؤ کو کیسے کم کر سکتا ہوں؟: بہترین طریقہ اس کی انفیکشن سے بچنا ہے۔ سی ڈی سی نے اس نظامِ تنفس کے مرض کے پھیلاؤ میں کمی کے لیے گائیڈلائنز کی ایک فہرست مرتب کی ہے۔ اس میں عام فہم مشورے دیے گئے ہیں، جن میں بیمار افراد کے قریب نہ جانا، آنکھوں، ناک اور منہ کو ہاتھوں سے نہ چھونا، صابن اور پانی سے ہاتھوں کو کم از کم 20 سیکنڈ دھونا شامل ہیں۔
کیا مجھے فیس ماسک پہننا چاہیے؟: گزشتہ ماہ تک صحت مند افراد کو فیس ماسک پہننے کی تجویز نہیں دی جاتی تھی۔ مگر اپریل کے اوائل میں سی ڈی سی نے اپنی تجاویز میں ترمیم کی اور مشورہ دیا کہ عوامی مقامات مثلاً دکانوں اور فارمیسیوں وغیرہ میں چونکہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا دشوار ہوتا ہے، اس لیے وہاں کپڑے کا ماسک پہننا چاہیے۔ عام لوگوں کو سرجیکل ماسک یا این95 ریسپی ریٹر پہننے کا مشورہ نہیں دیا جاتا تاکہ یہ شعبہ طب کے افراد کے لیے کم نہ پڑ جائیں۔ اگر دوسرے افراد اردگرد ہوں تو بیماروں کو بھی اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپنا چاہیے۔ اگر کوئی بیمار کپڑے سے ڈھانپنے کے قابل نہیں تو اس کی تیمارداری کرنے والے کو ایسا لازماً کرنا چاہیے۔
کووڈ19- کا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے؟: کووڈ19- کے پھیلاؤ کی نشاندہی اور کھوج کے لیے اس کی درست ٹیسٹنگ اہم ہے۔
شعبہ صحت سے وابستہ کوئی فرد ناک، گلے یا پھیپھڑوں سے مشتبہ فرد کا نمونہ لیتا ہے۔ یہ نمونہ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں بھیجا جاتا ہے جہاں ٹیکنیشنز جینیاتی معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور سارس کوو2- وائرس میں پائی جانے والی مخصوص ترتیب کو تلاش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف ٹیکنالوجیز اور طریقے استعمال ہو سکتے ہیں، تاہم نتائج آنے تک پورے عمل میں 4 سے 8 گھنٹے لگتے ہیں۔
کووڈ19- کی علامات ظاہر ہونے پر لوگوں کو کیا کرنا چاہیے؟: اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ کووڈ19- میں مبتلا ہو گئے ہیں اور آپ کو بخار ہے، نظام تنفس سے متعلق علامات، جیسا کہ کھانسی یا سانس لینے میں دشواری ہے، تو فوراً متعلقہ شعبے اور ماہرین سے رابطہ کریں۔
کووڈ19- کی علامات کیا ہیں؟: کووڈ19- کے مریضوں کو کم سے شدید کسی بھی درجے کی نظام تنفس کی بیماری ہو سکتی ہے جس کی علامات میں بخار، کھانسی اور تیز سانسیں شامل ہیں۔ یہ علامات جلد یعنی 2 دنوں میں یا تاخیر سے 14 دنوں تک ظاہر ہو سکتی ہیں۔
نظام تنفس کے دیگر امراض کی طرح کووڈ19- کے مریضوں میں مختلف طرح کی شدت پائی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چین میں تقریباً 45 ہزار مریضوں کے جائزے سے پتا چلا کہ 81 فیصد کو کم شدت کی علامات اور 14 فیصد کو زیادہ شدت کی علامات (ان میں شدید نمونیا اور تیز سانسیں شامل ہیں) ظاہر ہوئیں۔ باقی 5 فیصد مریض انتہائی بیمار پڑ گئے، ان کے لیے سانس لینا ممکن نہ رہا، فساد خون (سپٹک شاک) ہوا یا مختلف اعضا ناکارہ ہو گئے۔
کووڈ19- سے کتنے فیصد افراد بحال ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ فلو سے زیادہ مہلک ہے؟: اگرچہ بحالی کے عرصے میں فرق ہے لیکن کووڈ19- میں مبتلا ہونے والے بیشتر افراد شفایاب ہو جاتے ہیں۔ جن افراد میں بیماری کی شدت کم ہوتی ہے وہ چند دنوں میں بحال ہو جاتے ہیں، جبکہ شدید بیماری کی صورت میں کئی ہفتے، یہاں تک کہ کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ اس کا انحصار علامات کی شدت پر ہے۔
کووڈ19- سے موت کے امکان کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکا۔ چین سے موصول ہونے والی ابتدائی معلومات کے پتا چلتا ہے کہ انفیکٹڈ افراد کا تقریباً 3 فیصد موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ یہ شرح زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کم شدت کی علامات والے بہت سے افراد کئی بار شمار ہی میں نہیں آتے۔ ایک اور شائع شدہ تجزیے میں لیبارٹری سے تصدیق شدہ 1100 مریضوں میں شرح اموات 1.4 فیصد پائی گئی۔ اصل شرح معلوم کرنے میں تھوڑا مزید وقت لگ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں موسمی انفلوئنزا میں شرح اموات 0.1 فیصد ہوتی ہے۔
کووڈ19- کا علاج کیسے ہوتا ہے؟: تاحال کووڈ19- کا کوئی مؤثر علاج موجود نہیں۔ وائرسز کے خلاف اینٹی بائیوٹکس مؤثر نہیں ہوتیں، اس مرض پر انفلوئنزا کے لیے استعمال ہونے والی دواؤں نے اثر نہیں دکھایا لہٰذا علاج تیماردارانہ نوعیت کا ہوتا ہے جس میں بیماری کی علامات پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جسم میں پانی کی کمی نہیں ہونے دی جاتی اور بخار کم کرنے کی دوا دی جاتی ہے، اگر علامات شدید ہو جائیں تو نمونیا یا سانس لینے میں دشواری کا تریاق کیا جائے۔