ٹورنٹو: (ویب ڈیسک) کینیڈا کی پبلک ہیلتھ کی چیف ڈاکٹر نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی خبریں کورونا وائرس سے نمٹنے میں مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جب بات ہوتی ہے کورونا وائرس سے جنم لینے والی وبا کووڈ 19 کی تو اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے بھی خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست اس وبا کا شکار نہیں ہوا ہے، کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔
خبروں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔ اس صورتحال میں میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
دوسری طرف سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
کینیڈا کی چیف پبلک ہیلتھ ڈاکٹر تھریسامے ٹام کا کہنا ہے کہ جعلی خبریں تیزی سے پھیل رہی ہیں، ابھی پتہ نہیں یہ سچ پر مبنی ہیں یا جھوٹی، تاہم یہ خبریں عوام کی صحت کے حوالے سے بہت سارے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم جسٹسن ٹرڈوڈ نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، اور کوئی بھی شیئر کرتے ہوئے اس کے مستثند ہونے کو دیکھ لیں۔ کینیڈین وزیراعظم کے آفس کے حکام بھی اس حوالے سے پریشان ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم جسٹسن ٹرڈوڈ کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی لوگ ہمارے ملک میں جعلی خبریں پھیلا کر افراتفری پھیلا نا چاہتے ہیں تاکہ وباء کے خلاف ہماری کامیابیاں چھپی رہی۔
کینیڈا کی چیف پبلک ہیلتھ ڈاکٹر تھریسامے ٹام کا مزید کہنا تھا کہ جعلی خبروں کی تعداد بڑھنے کے بعد ان کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا پڑیں گے، اس کے لیے عوام کو آگاہی بھی دینا ہو گی، جو افواہوں پر فوری طور پر یقین کر لیتے ہیں۔