لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستان میں رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے اغوا، ان پر تشدد اور ریپ سمیت مختلف جرائم کے 2300 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور 57 بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل نے بچوں کے خلاف جرائم کے تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق بچوں کے خلاف مختلف جرائم کے زیادہ تر واقعات پنجاب میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم جنوری سے جون 2018 تک ملک بھر میں بچوں کے ریپ کے 360 واقعات سامنے آئے ہیں جبکہ اغوا کے 542 اور کم عمری میں شادی کے 53 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کم عمر لڑکوں کے ساتھ زیادتی کے 542 واقعات ہوئے اور بچوں کے لاپتہ ہونے کے 236 کیسز سامنے آئے، 92 بچوں کو گینگ ریپ کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے جنسی تشدد کے بعد 57 بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ تنظیم کے مطابق رواں سال بچوں کے خلاف جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں 1764 واقعات کے مقابلے میں اس سال جرائم کے 2322 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یاد رہے جنوری میں پنجاب کے شہر قصور میں کم سن بچی زینب کو ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں بھرپور احتجاج ہوا تھا۔
احتجاج اور عوامی غم و غصے کے سبب حکومت نے بھرپور آپریشن کے بعد زینب کے قاتل عمران علی کو گرفتار کر لیا تھا۔ مجرم عمران علی نے دورانِ تفتیش دیگر کم عمر بچیوں کو ریپ اور قتل کرنے کا انکشاف بھی کیا تھا۔ غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے بچوں کے خلاف جرائم کے زیادہ تر واقعات دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ہوئے جبکہ 26 فیصد واقعات شہری علاقوں میں پیش آئے۔ اعداد و شمار کے مطابق سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران سامنے آنے والے واقعات کے لحاظ سے یومیہ 12 سے زیادہ بچے مختلف جرائم کا شکار ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں دستیاب معلومات کے مطابق بچوں کے خلاف مختلف قسم کے جرائم سے 56 فیصد لڑکیاں متاثر ہوئیں جبکہ 44 فیصد واقعات میں لڑکے متاثر ہوئے۔ مختلف نوعیت کے استحصال کا شکار ہونے والے بچوں میں سے چھ سے دس سال کی عمر کے بچے زیادہ ہوتے ہیں۔ تنظیم نے ملک کے مختلف اخبارات میں بچوں کے خلاف جرائم کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں کی بنیاد پر یہ اعدادوشمار مرتب کیے ہیں اور ان کے مطابق اس کا مقصد ملک میں بچوں کے خلاف جنسی استحصال کے بارے میں حقائق فراہم کرنا ہے۔ ساحل کا کہنا ہے کہ بچوں کے خلاف سب سے زیادہ جرائم کا سامنا چھ سے دس سال کی عمر کے بچوں کرنا پڑتا ہے اور اس عمر کے بچوں کو زیادہ خطرہ ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم کے اکثر واقعات میں پولیس میں ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے جبکہ 32 واقعات میں پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا۔