پی ایس ایل کا عروج کرکٹ کے عالمی ستاروں کا جوش وخروش اور چوکوں چھکوں کی بہار

Last Updated On 08 March,2020 10:01 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستان سپر لیگ کا پانچواں ایڈیشن کرکٹ کے عالمی ستاروں کے جوش وخروش، چوکوں وچھکوں کی بہار اور شائقین کی دلچسپی کے باعث اپنے عروج پر ہے۔

پی ایس ایل کے میچوں کاجائزہ لیا جائے تو ہر میچ میں سنسنی خیز مقابلہ دیکھنے کومل رہا ہے اور سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ بارشوں کے باوجود سٹیڈیمز تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں اور شائقین کا جوش دیدنی ہوتا ہے۔

اس حوالے سے راولپنڈی کے شائقین داد کے مستحق ہیں جنہوں نے بارش میں بھی ہمت نہ ہاری اور میچ شروع ہوتے ہی ہاؤس فل ہو جاتا ہے۔ ملتان اور لاہور میں بھی شائقین کا جوش کسی سے کم نہیں تھا اور ہر جگہ تماشائیوں نے دونوں ٹیموں کو ہر اچھی گیند پر بلا تفریق داد وتحسین دی۔

پاکستان سپر لیگ کے چوتھے ایڈیشن نے ہمیں کئی بہترین نوجوان فاسٹ بائولر دئیے جو آج پاکستان ٹیم کا اہم حصہ ہیں اسی طرح رواں ایڈیشن میں بھی پشاور زلمی کے ایمرجنگ پلیئر حیدر علی کی صورت میں ایک بہترین بلے باز سامنے آیا ہے جس کی خود اعتمادی دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستانی ٹیم کو ون ڈائون کی پوزیشن کے لئے ایک اچھی چوائس مل گئی ہے۔

پشاور زلمی واحد فرنچائز ہے جو بیٹنگ کا انحصار اپنے کھلاڑیوں پر کرتی ہے جبکہ دیگر ٹیموں کو دیکھا جائے تو ان کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ کا دارومدار غیر ملکی کرکٹرز پر ہوتا ہے۔ پی ایس ایل فائیو کا سفر جوں جوں اپنے عروج کی جانب گامزن ہے تو کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے 34 میچوں کیلئے 70 ہزار امریکی ڈالرز کی خطیر رقم لائٹنگ والی وکٹوں اور بیلز کے کرائے پر اڑا دی، تاہم اتنے بھاری کرایہ پر لی گئی لائٹنگ والی وکٹوں اور بیلز کی فنی خرابی کے باعث کئی بار کھیل روکنا پڑتا ہے۔

پی سی بی نے پی ایس ایل فائیو کے لئے ایک غیرملکی کمپنی سے لائٹنگ والی وکٹیں اور بیلز کرائے پرحاصل کر رکھی ہیں۔ پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں بھی جب کراچی کنگز کے اوپنرز بیٹنگ کے لئے آئے اورامپائرز نے بیلز وکٹوں پر رکھیں تو وہ کام ہی نہیں کر رہی تھیں جس پر کچھ دیر کیلئے کھیل روکنا پڑا اور پھر کمپنی کے نمائندے نے فنی خرابی دور کی تو کھیل شروع ہوا۔

شائقین کرکٹ کاکہناہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس سے کم خرچ پربھی اچھی وکٹیں حاصل کرسکتاتھا اور اس خطیررقم سے ملک میں قومی سطح کاٹورنامنٹ منعقد کیاجاسکتاتھا جس سے نوجوانوں کوکھیلنے کاموقع بھی ملتا اورنیاٹیلنٹ بھی سامنے آتا۔پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے گراں قدر خدمات اورپاکستان سے محبت کااعتراف کرتے ہوئے پاکستان کی اعزازی شہریت حاصل کرنے والے پشاورزلمی کے کپتان ڈیرن سیمی کے ٹویٹ کاڈراپ سین بھی سامنے آگیا اوروہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر دو سالہ مدت کیلئے ہیڈ کوچ مقرر کردیئے گئے جن کی جگہ قیادت کا منصب فاسٹ بائولر وہاب ریاض نے سنبھال لیا جبکہ فرنچائز کے ڈائریکٹر کرکٹ محمد اکرم کو بائولنگ کوچ کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔

ایونٹ کے دوران ایک میچ میں ڈراپ ہونے کے بعد ڈیرن سیمی کے ذومعنی ٹوئٹ کا عقدہ بھی کھل گیا ہے جن کا کہنا تھا کہ میں نے ایک بات سیکھی ہے کہ آپ اسی وقت تک اہم ہوتے ہیں جب تک اپنا کام مکمل نہ کرلیں۔

اس کے بارے میں مختلف قسم کی چہ مگوئیاں کی گئیں اور ڈیرن سیمی کے فرنچائز سے اختلافات کو بھی ابھارا گیا جن کی سابق ویسٹ انڈین کپتان نے وضاحت کردی البتہ اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان کی انجری کی مشکلات اور اس کے نتیجے میں خراب فارم نے بطور کھلاڑی ان کا سفر اختتام پر پہنچا دیا ہے اور وہ اب بطور کرکٹر میدان میں نہیں اتریں گے ۔ ڈیرن سیمی کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ وہاب ریاض ٹیم کی قیادت کریں گے البتہ انہیں بھی خود کو منتخب کرنے کا پورا اختیار حاصل ہوگا۔

وہ فرنچائز کیلئے ہمیشہ بہترین کھیل پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے حالانکہ انہیں فٹنس مسائل کا بھی سامنا رہا تاہم اب وہ نوجوانوں کو آگے لانے کیلئے قدرے مختلف کردار نبھانا چاہتے ہیں۔پہلی بار ٹاپ فور میں پہنچنے والی ملتان سلطانز کی ٹیم شاندار کارکردگی کامظاہرہ کرتے ہوئے ایونٹ کی فیورٹ ٹیم بن چکی ہے اورراولپنڈی کے شائقین ملتان سلطانز اور اپنے پسندیدہ سپرسٹار شاہدآفریدی کے شدت سے منتظر ہیں ۔ پی ایس ایل کے حالیہ سیزن میں بھی لاہور قلندرز کی ناکام کارکردگی کا سلسلہ برقرار ہے اور موجودہ حالات نے فرنچائز کے مالک فوادرانا کو مایوسی میں مبتلا کردیا ہے ۔ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر آنے والے میچوں میں بھی لاہور قلندرز کی کارکردگی میں بہتری نہیں آئی تو فوادرانا اپنی ٹیم کسی اور کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

لاہور قلندرز پر بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور فرنچائز کے کوچز سال بھر ٹیلنٹ ہنٹ ٹرائلز کی مدد سے نئی صلاحیت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں لیکن اس محنت کے اثرات ٹیم کے نتائج میں دکھائی نہیں دیتے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ ٹیم کے سلیکٹرز جو ٹرائلز لیتے ہیں ان کا مقصد کیا ہے جب ان کی ٹیم کو کوئی فائدہ ہی نہیں پہنچ رہا ہے۔

کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر کراچی کے بقیہ میچز راولپنڈی یالاہور منتقل کرنے کی تجویز بھی زیرغور آئی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرپائے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے نو عمر فاسٹ بائولر نسیم شاہ بائیں ٹخنے کی انجری سے دوچار ہوکر ایک ہفتے کیلئے ٹورنامنٹ سے باہرہوگئے ہیں۔نوعمر پیسر کو انجری کے خطرات کے پیش نظر ابتدائی دو میچوں میں نہیں کھلایا گیا تھا تاہم وہ ایک بار پھر مشکل سے دوچار ہیں۔وہ اس سے قبل بنگلا دیش کیخلاف ٹیسٹ میچ میں بھی انجری کے باعث آخری دن بائولنگ نہیں کراسکے تھے ، لہٰذا پی سی بی کو اس نوجوان کھلاڑی کے مسئلے کوسنجیدگی سے دیکھنا چاہئے تاکہ اس نوجوان کاکیریئر متاثر نہ ہو۔

اس ایونٹ میں پی سی بی حکام کے کہنے پر سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے اعزازی پاس اورٹکٹ لینے پر پابندی عائد کی اورسرکاری افسران واہلکاروں کومیچ دیکھنے کیلئے ٹکٹ خریدنے کی ہدایت کی جبکہ پی سی بی نے بھی اپنے آفیشلز سمیت دیگر متعلقہ افراد کو اس بار اعزازی پاسز دینے میں بڑی کنجوسی برتی۔

میرے خیال میں یہ کوئی غلط روایت نہیں ہے لیکن اس میں بھی یکساں پالیسی برتی جاتی ، لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ پی سی بی نے ہزاروں کی تعداد میں جو اعزازی پاس پرنٹ کئے ، تقسیم بھی ہوئے تو پھر وہ کن لوگوں کو دئیے گئے اوراس سلسلے میں کیاپالیسی مرتب کی گئی تھی کیونکہ آفیشلز میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی کو تین ملے توکسی کوتیس، اوراعزازی پاسز مارکیٹ میں فروخت ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں، جو لمحہ فکریہ ہے۔ پی سی بی حکام کو ان باتوں کانوٹس لیناچاہئے۔ اسی طرح کیمرہ مینوں کے مسئلہ سمیت میڈیاایکریڈیشن پالیسی میں بھی میرٹ اورادارے کی پالیسی کی بجائے پسند وناپسند زیادہ نظر آئی جو کہ نہیں ہونی چاہئے ۔

تحریر : زاہداعوان