واشنگٹن: (ویب ڈیسک) کورونا وائرس کے باعث امریکا میں تیزی سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا ری ہے، تاہم معاشی حوالے سے وہاں کی افسوسناک خبریں آ رہی ہیں، امریکا میں دس سال میں پیدا ہونے والی نوکریاں چار ہفتوں میں ختم ہو گئی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا میں فقط ایک مہینے میں کورونا کی وبا نے تقریباً اتنی نوکریوں کے برابر نوکرایاں ختم کر دی ہیں جو امریکا میں 2008 اور 2009ء کے معاشی بحران کے بعد پیدا کی گئی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 1930 کی دہائی کے گریٹ ڈپریشن کے بعد سب سے بڑا بحران ہے۔
معاشی ماہرین پرامید ہیں کہ آنے والے دنوں میں جیسے ہی چھوٹے کاروباروں سے منسلک افراد کو حکومت کی جانب سے مدد ملے گی تو بیروزگاری کی تعداد میں کمی آنے لگے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اپریل کے آخر تک دو کروڑ امریکیوں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ
اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب گورنرز اس پر بات چیت کریں گے کہ ملک کے مختلف علاقوں جہاں کورونا کے کیسز کی بڑی تعداد کا دور گزر چکا ہے، ان کو کیسے کھولا جائے تو اس کے بعد ہی بیروزگار افراد کی تعداد میں کمی ہو گی۔
یکم مئی کے بعد ملک کی مختلف ریاستوں کو کھولے جانے کے سلسلے میں نئی گائیڈ لائنز یعنی نئے ضوابط کیا ہوں گے اس حوالے سے صدر ٹرمپ کا اعلان آج متوقع ہے۔
امریکی حکومت نے آٹھ کروڑ امریکیوں کو فی کس 1200 امریکی ڈالر کے چیک اور ہر بچے کے لیے 500 ڈالر دینے کا آغاز کیا ہے۔ یہ فیڈرل حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مختص دو کھرب ڈالر کے امدادی پیکج کا حصہ ہے۔
یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بیروز گاری کے الاؤنس کی درخواستوں کے اعداد و شمار پوری تصویر پیش نہیں کرتے کیوں کہ ہر کوئی اس الاؤنس کا حقدار نہیں۔
اس کے علاوہ اپنا کام کرنے والے افراد اور آن لائن یا آن ڈیمانڈ کام کرنے والے افراد جن کے پاس عارضی مدت کے لیے کام ہوتا ہے کو درخواستین دینے میں تاخیر ہوئی ہے کیوں کہ وہ مارچ ریلیف بل کے بعد ہی وہ اس کے اہل ہوئے ہیں۔ اس لیے کتنے افراد بیروز گار ہوئے یہ اعدادوشمار سامنے آنے والی تعداد سے ممکنہ طور پر کہیں زیادہ ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے باعث امریکا کو ایک دہائی کے دوران روزگار کے سلسلے میں حاصل ہونے والے فوائد، نقصان میں تبدیل ہوچکے ہیں اور لوگ حکومت کی مدد کے لیے فوڈ بینکوں کے باہر قطار در قطار کھڑے نظر آ رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق امریکا میں 2010 سے فروری 2020 تک تقریباًً 2 کروڑ 20 لوگوں کو نوکریاں ملی تھیں لیکن اس وبا کے دوران محض چند ہفتوں میں اتنے ہی افراد نوکریاں گنوا چکے ہیں اور امریکی شہری ایک دہائی میں حاصل کی گئیں نوکریاں گنوا بیٹھے ہیں۔
ماہرین معاشیات نے خبردار کیا کہ اس لاک ڈاؤن کے اثرات سے نکلنے میں طویل وقت لگ سکتا ہے اور سال کے اختتام تک لاکھوں امریکی نوکریوں سے محروم رہ سکتے ہیں، اگر کچھ معاشی سرگرمیاں بحال ہو بھی گئیں تو بھی بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور ویکسین کے بغیر لوگ ریسٹورنٹ اور دفاتر جانے میں خوف محسوس کریں گے۔
اس حوالے سے اعدادوشمار پر گہری نظر رکھنے والے نیشنل ایسوسی ایشن فار بزنس اکنامکس کے امریکی ماہرین نے بتایا کہ امریکا میں اس وقت بیروزگاری کی شرح 20 فیصد ہے اور سال کے اختتام تک بھی یہ 10فیصد رہنے کا اندیشہ ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر 10 میں سے ایک فرد کے پاس نوکری نہیں ہو گی۔
فلیڈیلفیا کے فیڈرل ریزرو بینک کے صدر پیٹرک ہارکر نے کہا کہ ہمیں دو سہ ماہیاں انتہائی بحرانی حالات میں گزارنا ہوں گی، میرے خیال میں بیروزگار کے اعدادوشمار 20 فیصد کے قریب ہوں گے۔
امریکا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر ریاست اور تقریباً ہر صنعت میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور آنے والے امریکی انتخابات میں انتہائی اہم تصور کی جانے والی چند ریاستیں اس سلسلے میں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
مچیگن میں گزشتہ ماہ کے دوران 21 فیصد افراد نے بیروزگاری فنڈ کیلئے درخواست دی، پینسل وینیا، اوہیو اور نیواڈا میں 20 فیصد افراد بیروزگار ہوئے جبکہ اس حوالے سے سب سے بری صورتحال ریاست ہوائی کی ہے جہاں 22 فیصد افراد نوکریاں گنوا بیٹھے۔