بینکاک: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کوروناوائرس کے باعث عالمی معیشت میں بھونچال سا آ گیا ہے جس کے بعد متعدد ممالک اپنی معیشتوں کو بچانے کے لیے مصروف عمل ہیں، تاہم اسی دوران مہلک وباء کے باعث دنیا بھر میں سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے بعد تھائی لینڈ کے سینکڑوں شہری اپنے قیمتی زیوارت فروخت کرنے بینکاک کے 'چائنا ٹاؤن' میں امڈ آئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ملک کی سب سے اہم سونے کی مارکیٹ چائنا ٹاؤن کی دکانوں میں سونا بیچنے والوں کا رش اس قدر بڑھ گیا ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے۔ ٹریفک پولیس کے لیے لوگوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا ہے اور لوگ قطاروں میں لگ کر سونا بیچ رہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق سونے کی قیمتوں میں پچھلے 7 سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ ایک اونس سونے کی قیمت ایک ہزار 731 اعشاریہ دو پانچ امریکی ڈالر رہی۔
تھائی شہریوں کی بڑی تعداد سرمایہ کاری کی غرض سے وقتاً فوقتاً سونے کے زیوارت ذخیرہ کرتی ہے۔ سونے کی قیمت بڑھنے پر اسے مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔
بینکاک میں پندرہ دن کا ورچوئل لاک ڈاؤن جاری ہے۔ لہٰذا سیکڑوں افراد بینکاک کے چائنا ٹاؤن پہنچے جہاں انہوں نے اپنے سونے کے ہار، کڑے اور انگوٹھیاں بیچنا شروع کردیں۔ معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی لوگ سونے کی قیمتی اشیا اور زیوارت مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔
عالمی منڈی میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ان لوگوں کو زیادہ فائدہ ہو رہا ہے جنہوں نے بڑی مقدار میں سونا ذخیرہ کر رکھا تھا۔
یاد رہے کہ سونے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ امریکہ کی طرف سے معیشت کو کھربوں ڈالر کے سہارے ازسر نو مرتب کرنا بتایا جاتا ہے۔
ایک تھائی شہری نے اے ایف پی کو بتایا کہ اُنہیں پیسوں کی تنگی کا سامنا ہے۔ لہذا اپنے پاس موجود سونے کے زیورات فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور چائنا ٹاؤن چلے آیا۔
ٹریڈ ایسوسی ایشن کے چیئرمین جیٹی تنگ سیت پکڈی کا کہنا ہے کہ تاجروں نے منگل سے اب تک لاکھوں ڈالر مالیت کا سونا خرید لیا ہے۔ ایک دکان دار نے 60 لاکھ ڈالر کے زیورات اور سونے کی ٹکیاں خریدی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں مندی کا شکار ہیں ایسے میں لوگ سونا بیچ کر روزمرہ کا خرچہ پورا کر رہے ہیں۔
ایک تھائی شہری نے بتایا کہ انہوں نے اپنی 60 سالہ زندگی میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قطاروں میں لگ کر سونا بیچتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
43 سالہ انوم پورن پانسا کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ بچوں کی پرورش اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے۔ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ہی انہوں نے زیورات فروخت کر دیے ہیں۔