پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کی بھرمار، مگر معیار انتہائی گھٹیا

Last Updated On 02 July,2018 04:40 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) نگران حکومت نے پندرہ روز میں دوسری مرتبہ عوام پر پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا بم گرا دیا، گزشتہ حکومت کا بھی یہی وطیرہ رہا، بھاری ٹیکسوں سے عوام کو جی بھر کے لوٹا گیا، مگر گھٹیا ترین پیٹرول فراہم کیا گیا۔

پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کی بھرمار، مگر معیار انتہائی گھٹیا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں ٹیکس اور لیوی کی مد میں پانچ سو پچیس ارب روپے وصول کیے گئے۔ نگران حکومت نے صرف پندرہ روز میں دو بار پٹرول بم دھماکا کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں 13 فیصد اضافہ کیا۔

ہائی سپیڈ ڈیزل 20.75 فیصد اور مٹی کا تیل 9.78 فیصد مہنگا کر دیا گیا۔ بھاری ٹیکسوں کے باوجود پاکستان میں ناقص ترین یورو ٹو پٹرول کی فروخت جبکہ پڑوسی ملک بھارت یورو سکس تک پہنچ گیا ہے۔ ناقص پٹرول کے استعمال سے ماحول آلودہ اور عوام خطرناک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

ظلم کی انتہا دیکھیے کہ پاکستانی عوام پیٹرول پر کل 31 روپے سترہ پیسے فی لیٹر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس میں سے دو روپے 59 پیسے کسٹم ڈیوٹی اور 9 روپے 85 پیسے جی ایس ٹی ہے۔ ان لینڈ فریٹ چارجز 3 روپے 83 پیسے، آئل مارکیٹنگ کمپنی مارجن 2 روپے 55 پیسے، ڈیلر مارجن 3 روپے 35 پیسے اور دس روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل پر سب سے زیادہ 43 روپے 19 پیسے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ مٹی کے تیل پر انیس روپے سترہ پیسے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔

ن لیگی حکومت پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کےدعوے کرتی رہی، مگر حقیقیت اس کے برعکس تھی۔ عالمی منڈی میں تیل مسلسل سستا ہونے کے باوجود پانچ برسوں میں 22 بار قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ 18 مرتبہ قیمتیں برقرار رکھی گئیں جبکہ صرف بیس مرتبہ قیمتوں میں کمی کی گئی۔ سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے پیڑولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کی مد میں عوام سے 365 ارب روپے بٹور لئے، مگر گھٹیا ترین یورو ٹو پٹرول کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ایک پائی خرچ نہیں کی۔

آپ کے ذہنوں میں یہ اہم سوال آ رہا ہو گا کہ یورو کوالٹی پٹرول کیا ہے؟ یورو ون وہ پٹرول ہے جس میں سلفر کی مقدار ایک ہزار پارٹس فی ملین ہوتی ہے۔ یورو ٹو میں یہ مقدار پانچ سو پی پی ایم، یورو تھری میں تین سو پچاس، یورو فور میں پچاس جبکہ یورو فائیو اور سکس میں سلفر کی مقدار کم ہو کر صرف دس پی پی ایم رہ جاتی ہے۔

پاکستان میں پارکو، اٹک آئل، نیشنل ریفائنری، پاکستان ریفائنری اور بائیکو ریفائنریاں صرف یورو ٹو پٹرول تیار کر رہی ہیں۔ سعودی عرب، کویت، یو اے ای اور ایران سے ملکی ضرورت کا 70 فیصد پٹرول درآمد کیا جا رہا ہے، اس کا میعار بھی یہی ہے۔

پاکستان میں یہ خراب حالی، مگر دنیا آگے نکل گئی ہے۔ قطر، یو اے ای، بحرین اور سعودی عرب کا 2020ء تک یورو 6 پٹرول متعارف کرانے کا پلان ہے۔ ایران نے یورو فائیو سے چھ تک چھلانک لگانے کی منصوبہ بندی کر لی۔

معیاری پٹرول کی تیاری اور سپلائی میں سب سے متاثر کن کارکردگی بھارت کی ہے۔ انڈیا اپنی ریفائنریز میں یورو تھری اور فار فیول کی تیاری کے لئے پانچ سو پچاس ارب روپے خرچ کر چکا ہے جبکہ 2020ء تک مزید تین سو ارب روپے انویسٹ کرنے کا پلان بنا رکھا ہے۔ خطرناک کیمیکلز ملا یورو ٹو پٹرول سے گاڑیوں کے انجن کی زندگی آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔

ظلم پر ظلم یہ کہ ہماری ریفائنریاں کم معیار کے پیٹرول میں آکٹین لیول بڑھانے کے لئے خطرناک کیمیکلز کا استعمال کر رہی ہیں۔ آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی کے سی ای او تیل میں ملاوٹ کا اعتراف کرتے ہیں۔

گاڑیوں کے انجن کا کیا رونا، غیر میعاری پیٹرول کے باعث انجن سے نکلنے والی گیسوں سے انسانی زندگی کو شدید خطرہ اور سانس لینا بھی محال ہو گیا ہے۔ ماہرین ماحولیات اس صورتحال سے شدید پریشان ہیں۔ چیف جسٹس نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی، گیس کی قیمتوں پر بھاری ٹیکسوں کا از خود نوٹس لے لیا ہے، ان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ پانچ جولائی کو عوامی اہمیت کے اس اہم ترین معاملے کی سماعت کرے گا۔