اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے، کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ججز نے ایک دوسرے کے فیصلوں اور اقدامات پر سوالات اٹھانا شروع کر دیئے ہیں، تیرہ رکنی بنچ کے 8 ججز فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے نتائج کے حوالے سے تنبیہ کر رہے ہیں تو دو ججز اس پر کہہ چکے ہیں کہ جو فیصلہ آئین کے خلاف ہو اس پر عملد رآمد نہ کیا جائے، 8 ججز اختلافِ رائے رکھنے والے دو جج صاحبان کے اس اقدام کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ قرار دے رہے ہیں، 8 جج صاحبان اپنے فیصلے پر وضاحت جاری کرتے ہیں تو چیف جسٹس آف پاکستان اس وضاحت جاری کرنے کے طریقِ کار پر 9 سوالات اٹھا دیتے ہیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کیلئے آرڈیننس جاری ہونے کے چند ہی گھنٹوں میں چیف جسٹس آف پاکستان کیسز مقرر کرنے والی ججز کمیٹی کو تبدیل کر دیتے ہیں، جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی میں شامل کر دیا جاتا ہے جس پر کمیٹی کے رکن اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے پرانی کمیٹی بحال ہونے تک اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مطالبہ کیا کہ فل کورٹ بنچ یا سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان کا اجلاس بلا کر معاملے پر فیصلہ کیا جائے۔
عدلیہ کے اندر اس تقسیم کا تعلق 25 اکتوبر کو ہونے والی تبدیلی سے بھی ہے جس کیلئے اعصاب کی جنگ شروع ہو چکی ہے، ہر دن ایک کے بعد ایک پیشرفت اور سینے سے لگے کارڈز عدلیہ، پارلیمان اور ملکی سیاست میں بھونچال لاتے ہیں، عدلیہ میں اس اختلاف کا فائدہ حکومت کو ہو رہا ہے جو طے کر چکی ہے کہ ہر صورت آئینی ترمیم کر کے آئینی عدالت بنائی جائے گی تاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اختیارات نئی عدالت کو منتقل کر دیئے جائیں۔
آئینی ترمیم کرنے کیلئے حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار ہے جس کیلئے اس کی نظریں تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں پر تھیں مگر مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے نے حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چکرا کر رکھ دیا ہے، پہلے 12 جولائی کو مختصر فیصلہ جاری ہوا، چند روز قبل الیکشن کمیشن کی درخواست پر 8 جج صاحبان کی وضاحت اور اب دو روز قبل جاری ہونے والے تفصیلی فیصلے نے صورتحال کو تبدیل کر دیا ہے۔
ایک جانب جہاں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد گزشتہ اڑھائی ماہ سے رکا ہوا ہے وہیں حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کئی کوششوں کے باوجود مخصوص نشستوں سے متعلق اپنی مرضی کا قدم اٹھانے میں ناکام نظر آتے ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی ججوں کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم غیر مؤثر ہو چکی ہے، الیکشن کمیشن اب پریشان ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو ا تو اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا، مگر فیصلے پر عملدرآمد کی صورت میں بھی اس کیلئے بہت سے مسائل ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے، جو مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، الیکشن قانون کی کوئی شق اگر انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق سیاسی جماعتوں کے حقوق تسلیم نہیں کرتی تو وہ غیر آئینی ہے، سیاسی جماعت کو مخصوص نشستوں کے عمل سے باہر کیا جانا آئین اور الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصو ص نشستیں تقسیم کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کو اختیار دینے والے رُول94 کی وضاحت کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس کے بعد اب الیکشن کمیشن آف پاکستان جو تحریک انصاف کی مخصوص نشستیں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں میں تقسیم کرنے کیلئے پر تول رہا تھا اب یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتا، سپیکر کے خط کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بتایا گیا کہ پارلیمان مخصو ص نشستوں سے متعلق قانون میں ترمیم کر چکی ہے۔
ایسے میں وہ 12 جولائی کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرے مگر 23 ستمبر کے تفصیلی فیصلے نے ایسی تمام قانونی شقوں کو خلافِ آئین قراردیا ہے جو سیاسی جماعتوں سے ان کا آئینی حق چھینیں، قانونی ماہرین کے مطابق تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترامیم غیر مؤثر ہو چکی ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان سات اجلاس بلا کر بھی فیصلہ نہیں کر سکا کہ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیا فیصلہ کرنا ہے۔
حکومت عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہ اعتراض اٹھا رہی ہے کہ جب ایک آزاد رکن کی کسی جماعت میں شمولیت کیلئے قانون میں تین روز دیئے گئے ہیں تو عدالت نے تحریک انصاف کو کیسے 15 روز دے دیئے، عدالتی فیصلہ بتاتا ہے کہ اس نے آئین اور قانون کی تشریح کرتے ہوئے اس بنیادی غلطی کو درست کیا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت تسلیم نہ کر کے اس کے آئینی حقوق سلب کئے گئے۔
دہ تہائی اکثریت کے معاملے پر حکومت کی نظریں اب 63 اے سے متعلق نظرثانی درخواستوں کے فیصلے پر ہیں جو سپریم کورٹ آف پاکستان نے 30 ستمبر کو پانچ رکنی لارجر بنچ کے سامنے فکس کر دیا ہے، اس بنچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں، مئی 2022ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا تھا کہ منخرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا جس کے بعد ملک میں ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کا راستہ بند ہوگیا۔
حکومت ہر صورت آئینی عدالت بنانے کیلئے آئینی ترمیم کیلئے میدان میں اُتر چکی ہے، بلاول بھٹو نے حال ہی میں وکلا کی تقریب سے خطاب میں اعلان کیا کہ آئینی عدالت بنانا ضروری اور مجبوری ہے، اسے بنا کر رہیں گے، مگر یہ معاملہ شاید اتنا آسان نہیں جتنا حکومت سمجھ رہی ہے، کیونکہ اس نے یہ تمام کام اکتوبر کے وسط سے پہلے مکمل کرنے ہیں اور اس نظام کے کچھ سٹیک ہولڈرز ابھی پتے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
ایک ٹیم کے پاس کم اوورز میں رنز کا ہدف زیادہ ہے تو دوسری نے صرف باؤنڈریز روکنی ہیں، ٹیم کوئی بھی جیتے اس کے نتائج ملک میں عدم استحکام کو بڑھاوا دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔