لاہور: (روزنامہ دنیا) قومی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی بقا انتخابات میں حصہ لینے سے ہی وابستہ ہے۔ ملکی تاریخ اس بات کی گواہی دے گی کہ انتخابی عمل سے باہر رہنے والی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سیاسی نقصان ہی اٹھایا ہے۔ ماضی سے سبق نا سیکھتے ہوئے اس سال بھی کچھ سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مرتبہ بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں میں علامہ طاہر االقادری کی پاکستان عوامی تحریک شامل ہے جبکہ بانی ایم کیو ایم نے بھی عوام سے اپیل کی ہے وہ انتخابات سے لاتعلق رہتے ہوئے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کریں تاہم انکی جماعت تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور دیگر دو حصے ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ملکی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انتخابی عمل اور جمہوری نظام سے باہر رہ جانے والی قوتیں ہمیشہ قومی سیاست میں غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہیں اور انکو اپنا کردار بحال کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔ 2002 کے ایوان میں 60 نشستیں حاصل کرنے والی ایم ایم اے 2008 میں سکڑ کر 12 نشستوں تک محدود ہو گئی کیونکہ ایم ایم اے کی بڑی پارٹی، جماعت اسلامی نے انتخابات سے بائیکاٹ کا فیصلہ کر دیا تھا اور 2013 میں جماعت اسلامی نے دوبارہ انتخابات میں حصہ لیا تو صرف تین نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی۔ 2008 کے انتخابات میں بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر کئی سیاسی جماعتیں بھی تھیں جو اے پی ڈی ایم نامی سیاسی اتحاد کا حصہ تھیں۔ تحریک انصاف نے بھی 2008 میں بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا اور 5 سال کے لیے سیاسی و پارلیمانی عمل سے مکمل طور پر باہر ہو گئی۔ تحریک انصاف کے علاوہ بلوچستان کی تمام قابل ذکر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے بائیکاٹ کیا اور سیاسی نقصان اٹھایا۔
مسلم لیگ نواز نے بھی اس کثیر الجماعتی اتحاد کے ساتھ بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا لیکن بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کے مشورے پر بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیا اور انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا اور پنجاب میں حکومت بنا لی۔ بانی ایم کیو ایم کی جانب سے بھی بائیکاٹ کے فیصلے کا نقصان ان کی جماعت کے علاوہ کسی اور کو ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔اس سے قبل بھی ایم کیو ایم نے 2001 میں بلدیاتی انتخابات سے بائیکاٹ کر دیا تھا جسکا انہیں شدید سیاسی نقصان اٹھانا پڑا، اس سے قبل 1993 کے انتخابات میں بھی ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کر دیا تھا جسکی وجہ سے انکی حریف جماعتیں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کراچی میں انکی جگہ پر کامیاب ہو گئیں تھیں۔ بائیکاٹ کرتے وقت سیاسی جماعتوں کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ انکے بائیکاٹ کر دینے کی وجہ سے انتخابات کی اہمیت کم ہوگئی ہے اور عوام کی بڑی تعداد انتخابی عمل سے لا تعلق رہے گی ووٹرز پولنگ سٹیشن کا رخ نہیں کریں گے لیکن کبھی یہ دعوے عملی طور پر حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے اور جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد برقرار رہا اورعوام نے ہمیشہ انہی پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتوں کو پذیرائی بخشی جو ووٹ کی حرمت اور طاقت پر یقین رکھتی ہیں۔